مولانا خانزیب شہید کا جرم

Blogger Mehran Khan

ہم پشتونوں کو کیوں قتل کیا جاتا ہے؟
ہمارا وجود خون سے لت پت کیوں ہے؟
ہم مسلسل جنازے کیوں اٹھا رہے ہیں؟
ہماری عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کون کروا رہا ہے؟
ہمارے گھر بسنے سے پہلے کیوں اجڑ جاتے ہیں؟
کیوں یہ ریاست ہماری محافظ بننے کے بہ جائے ہمارے سینے چھلنی کرنے والوں کی محافظ بنی ہوئی ہے؟
کیوں اس ریاست کو ہم گندے نالی میں پلنے والے کیڑے لگتے ہیں؟
کیوں یہ ریاست ہمارے ساتھ تیسرے درجے کے شہری سے بھی بدتر سلوک روا رکھ رہی ہے؟
ہم کب تک اس جنگ کی بھٹی میں ایندھن کے طور پر جلتے رہیں گے، جس کی آگ کسی اور کی بھڑکائی ہوئی ہے؟
ہم کب تک اس ریاست کی زمین بوس عمارت کے ملبے تلے سسک سسک کے مرتے رہیں گے؟
ہماری چیخیں کب تک اس افسردہ فضا میں گونج کر واپس ہماری سماعتوں سے ٹکرا کے ہمیں پاگل کرتی رہیں گی؟
ہمارے آہوں کو اثر ہونے تک مزید کتنی عمر، کتنی دہائیاں اور کتنی صدیاں درکار ہیں؟
ہم پشتون کب تک اس استعماری ریاست کے آگے جھولی پھیلا کے امن کی بھیک مانگتے رہیں گے؟
کیوں اس ریاست کو ہمارے مسائل سے زیادہ ہمارے وسائل میں دل چسپی ہے؟
کیا ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پختونخوا میں پیدا ہوئے ہیں اور اس ریاست کے شہری ہیں؟
یہ ریاست ہم پشتونوں کو کیوں اپنے شہری نہیں سمجھتی؟
ایسی کون سی قربانی ہے، جسے دینے سے ہم نے دریغ کیا ہو؟
قارئین! ریاست تو اُڑتی چڑیا کے پر بھی گن لیتی ہے لیکن کیوں یہ ریاست جان بوجھ کے ہم پشتونوں کے معاملے میں اتنی غفلت برتتی ہے کہ یہ ہماری تحفظ تک نہیں کر پارہی؟
کب تک ہم اپنی سب سے بنیادی ضرورت ’’امن‘‘ کے لیے اس دیوتا کے آگے اپنا ماتھا رگڑتے رہیں گے؟
کب تک یہ ریاست امن کے لیے آواز اٹھانے والوں کو ’’غدار‘‘ کہتی رہے گی؟
کب تک امن کی مقدس آواز کو کفر سمجھا جاتا رہے گا؟
کب تک امن کے لیے بولنے والوں کو اٹھایا جائے گا، ڈرایا جائے گا، چپ کروایا جائے گا اور آخر میں اُنھیں گولیوں سے چھلنی کرکے ہمیشہ کے لیے خاموش کروایا جائے گا؟
کب تک اس خطے میں بدامنی جاری رکھنے کے لیے یہ ریاست چلانے ولاے ڈالر لیتے رہیں گے؟
اس ڈالری جنگ میں کتنے لاپتا ہوئے، کتنے مرگئے، کتنے گھر اُجڑ گئے، کتنے لوگ معذور ہوئے، کتنے ذہنی مریض ہوئے…… مگر جنگ کا نتیجہ کیا نکلا؟ ’’صرف بربادی……!‘‘
ہاں! ہماری بربادی…… اس خطے کی بربادی…… یہاں بسنے والے لوگوں کی بربادی…… زندگی کے ہر شعبے کی بربادی……!
اس بربادی کو ٹالنے کے لیے کتنی تحریکیں اُٹھیں، کتنے احتجاج ہوئے، لیکن ملا کیا……؟ ’’عارضی امن……!‘‘ اور اُس کے بعد وقفے وقفے سے مزید بربادی……!
اس بربادی کی کوکھ سے جنم لینے والی عوامی مزاحمتی تحریکیں جب امن کے لیے اپنا آئینی حق استعمال کرکے احتجاج کرتی ہیں، تو سربراہان کو قتل کیا جاتا ہے۔ مولانا خانزیب ’’شہید‘‘ کا جرم بھی محض یہ تھا کہ وہ اس ریاست کو چلانے والے استعماری قوتوں کے ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنا جانتے تھے۔ اُنھیں پشتونوں کی تاریخ، جغرافیائی اہمیت، پختونخوا کے وسائل اور مسائل کا بہ خوبی علم تھا۔
مولانا خانزیب شہید، باچا خان بابا کے فلسفۂ عدمِ تشدد کے قائل وہ مردِ قلندر تھے، وہ عالمِ بے بدل تھے، جو تشدد کی بہ جائے دلیل اور مکالمہ کے قائل تھے۔
شہید ’’مائنز اینڈ منرلز ایکٹ‘‘ کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کررہے تھے کہ یہ ایکٹ دراصل صوبائی خودمختاری اور 18ویں ترمیم کے ساتھ ساتھ پشتونوں سے اُن کے وسائل مستقل طور پر چھیننے کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔
شہید، پشتونوں کو اُن کی تاریخ سے جوڑنا چاہتے تھے۔
شہید نے پشتون نوجوانوں کو شعور دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔
اُن صاحبِ علم، صاحبِ قلم اور صاحبِ کتاب کا خواب یہ تھا کہ اس خطے میں امن ہو اور اپنے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ جان کی بازی تک ہار گئے…… لیکن اس خطے کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں خون کی قسطوں پر قسطیں دے کربھی امن نہیں ملتا۔
کبھی تو وہ وقت آہی جائے گا جب پشتونوں کے سر سے ’’قیدی نمبر 804‘‘ کا نشہ اُترے گا اور وہ حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں گے۔
کبھی تو وہ وقت آئے گا جب ہم اپنے اور پرائے میں تمیز کرسکیں گے۔
کبھی تو وہ وقت آئے گا، جب یہاں امن کا دور دورہ ہوگا اور پشتون برابر کے شہری تصور ہوں گے۔
کبھی تو وہ وقت آئے گا کہ ہمارے قاتلوں کا گریبان ہمارے ہاتھوں میں ہوگا اور ہمارے وسائل پر ہمارا اختیار ہوگا۔
کبھی تو وہ وقت آئے گا کہ لاپتا افراد، خودکش دھماکے اور نامعلوم افراد کے ہاتھوں مرنے کا عمل ہمیں ماضی کا قصہ لگے گا۔
خدا وہ دن دیکھنے کے لیے ہمیں جد و جہد اور مزاحمت کی توفیق عطا فرمائے۔ سر جھکا کے جینے سے سر اُٹھا کے مرنا ہزار درجے بہتر ہے۔ یہ لڑائی ہم عالمی استعمار کے اشاروں پر ناچنے والے ریاستی استعمار کے خلاف بول کر، لکھ کر، چیخ کر، حتی کہ جان دے کر بھی لڑیں گے۔ کیوں کہ جو بولے گا وہ مارا جائے گا، مگر جو چپ رہے گا، اسے بھی مرنا ہی ہے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے