تجاوزات آپریشن کا غیر جانب دارانہ تجزیہ

Blogger Tauseef Ahmad Khan
 انتظامیہ نے حالیہ دنوں دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا، جسے سخت عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مخالف حکومتی سیاسی شخصیات نے بھی بھرپور انداز میں اس مزاحمت میں حصہ لیا، جب کہ مقامی میڈیا نے غیر جانب دارانہ رپورٹنگ کی بہ جائے انتظامیہ کے خلاف فریق بن کر یک طرفہ موقف اپنایا۔ اس پورے آپریشن کو لوکل میڈیا سمیت کچھ سیاسی و سماجی حلقوں نے ’’معاشی قتل‘‘ کا نام دیا۔ مقامی سیاسی و سماجی راہ نماؤں کی جانب سے مختلف فورمزپر احتجاجی مظاہرے بھی ریکارڈ کیے گئے۔ مَیں نے تمام تقاریر بہ غور سنیں، تاکہ متاثرہ ہوٹل مالکان کے اصل مطالبات کو سمجھ سکوں، مگر تقریباً ہر تقریر اصل حقائق اور دلیل کے ساتھ بحث کرنے کی بہ جائے مخصوص سیاسی افراد پر تنقید کا محور رہی۔ بار بار یہی بات دہرائی گئی کہ چوں کہ آپریشن میں ایک بااثر شخصیت کا ہوٹل محفوظ رہا، اس لیے یہ کارروائی جانب دارانہ ہے۔
دوسرا اعتراض یہ اُٹھایا گیا کہ انتظامیہ نے انھی ہوٹلوں کو خود پہلے این اُو سیز جاری کیے اور بعد میں انھی کے خلاف آپریشن بھی کیا۔
چوں کہ سب سے زیادہ انھی دو نِکات پہ تقریر شروع ہوتی اور ختم بھی انھی پہ ہوتی۔ اس وجہ سے میں کسی واضح اور اصولی موقف تک نہیں پہنچ سکا۔ اگر واقعی کسی کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے، تو لازم ہے کہ معاملہ دلیل، قانون اور منطق کی بنیاد پر اُٹھایا جائے…… لیکن بدقسمتی سے یہ تقاریر محض جذباتی تھیں، جن میں ایک ہی بات بار بار دہرائی گئی اور اصل نکتہ کہیں پیچھے رہ گیا۔
خیر، مَیں نے انتظامیہ کا موقف بھی سنا کہ جہاں تک این اُو سی کا تعلق ہے، انتظامیہ کا موقف ہے کہ یہ این اُو سیز شروع میں صرف قانونی حدود کے اندر تعمیرات کے لیے دی گئی تھیں۔ بعد میں ہوٹل مالکان نے اس کا غلط استعمال کرتے ہوئے دریا کے کنارے تجاوزات اور بے ہنگم آبادیاں قائم کیں۔ انتظامیہ کے مطابق، غیر قانونی تعمیرات کے خلاف متعدد بار آپریشن کیا گیا اور بارہا نوٹس بھی جاری کیے گئے، لیکن اس کے باوجود تجاوزات کا سلسلہ جاری رہا۔ حالیہ انکوائری رپورٹ میں بھی حالیہ بائی پاس کے مقام پر دریا میں حادثے کی ذمے داری انھی ہوٹل مالکان پر ڈالی گئی۔ کیوں کہ مہمان اُسی غیر قانونی حصے میں پکنک کر رہے تھے، جہاں کوئی احتیاطی تدابیر نہیں اپنائی گئی تھیں، نہ اُن کو خبردار ہی کیا گیا تھا ۔ 
اگر دوسرے اعتراض کو دیکھیں، تو اگر واقعی کسی بااثر شخص کا ہوٹل گرایا نہیں گیا، تو یہ انتظامیہ کی طرف سے دوہرا معیار ضرور ہوسکتا ہے، لیکن یہ دلیل باقی تجاوزات کو درست ثابت نہیں کرتی۔ اس بات سے تو صرف اتنا ظاہر ہوتا ہے کہ آپریشن درست تھا، مگر مکمل نہیں تھا۔ اس بنیاد پر تجاوزات کے خلاف جواز پیش کرنا منطقی نہیں، بل کہ اپنے ہی موقف کو کم زور کرنا ہے۔ 
خیر، مَیں نے اس موضوع پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ عوام کو اصل حقائق سے روشناس کرایا جاسکے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ آپریشن شروع کرنے کی وجوہات کیا ہیں، عوامی تحفظات کیا ہیں اور دریائے سوات کی حدودات اور اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟ 
علاوہ ازیں، ’’ریور پروٹیکشن ایکٹ‘‘ پر بھی آیندہ کسی تحریر میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔ کیوں کہ یہ ایک نہایت اہم اور تفصیل طلب مسئلہ ہے۔
اگر ہم موجودہ تجاوزات کے مسئلے کو مکمل طور پر سمجھنا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے ہمیں دریائے سوات کی ’’باؤنڈری لائن‘‘ اور ’’سینٹر لائن‘‘ جیسے تصورات کو واضح کرکے سمجھنا ہوگا۔ کیوں کہ یہی وہ نکتہ ہے، جہاں سے عوام اور انتظامیہ کے درمیان اختلافات جنم لیتے ہیں۔
اصل میں اگر دیکھا جائے، تو سوات کے بیش تر علاقوں میں دریا کے دونوں اطراف والیِ سوات کے دور سے مختلف قبائل یا یوسف زئی قبیلے کی مختلف شاخیں آباد ہیں۔ اگر دریائے سوات کو مساوی طور پر تقسیم کیا جائے، تو درمیان میں جو فرضی لکیر کھینچی جاتی ہے، اُسے ’’سینٹر لائن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسے آپ دریا کا وسطی خط سمجھ سکتے ہیں۔ دوسری جانب، ’’بانڈری لائن‘‘ وہ حد بندی ہے، جو دریا کے کنارے کو عوام کی ذاتی یا مشترکہ زمینوں سے جدا کرتی ہے۔ عام طور پر اسی حدود پر محکمۂ آب پاشی (ایری گیشن) حفاظتی پشتے تعمیر کرتا ہے، تاکہ دریا کے بہاو سے آبادی اور زرعی اراضی کو تحفظ دیا جاسکے۔
2022ء سے پہلے تک، عوام کو اور نہ انتظامیہ کو ’’سینٹر لائن‘‘ یا ’’باؤنڈری لائن‘‘ پر کوئی خاص اعتراض ہوا تھا، نہ اس کی خاص ضرورت ہی پیش آئی تھی۔ محکمۂ آب پاشی عموماً والیِ سوات کے زمانے میں بنائے گئے پشتوں کے آس پاس ہی حفاظتی پشتے تعمیر کرتا۔ بعض اوقات زمین مالکان کو تحفظات ہوتے، کیوں کہ مذکورہ پشتوں سے اُن کی ذاتی زمینوں کا کچھ حصہ متاثر ہوتا، جس کی بنا پر وہ احتجاج کرتے یا عدالت سے رجوع بھی کرتے…… لیکن محکمۂ آب پاشی اپنی پالیسی اور منصوبے کے مطابق کام جاری رکھتا۔
جب حالیہ آپریشن کا آغاز ہوا، تو دریائے سوات کے اطراف میں زمین کے مالکان نے ’’سینٹر لائن‘‘ کے تعین کا مطالبہ شدت سے اٹھایا۔ اُن کا موقف ہے کہ سب سے پہلے اُس سینٹر لائن کو واضح کیا جائے، جو والیِ سوات کے دور سے رائج ہے…… ایک روایتی حدِ فاصل، جو دریا کے دونوں کناروں پر آباد اقوام کے درمیان عرصۂ دراز سے تسلیم شدہ تھی۔ یہ سینٹر لائن دریائے سوات کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرتی تھی، جہاں آدھا دریا ایک طرف کی قوم کی ملکیت تصور کیا جاتا تھا اور باقی ماندہ آدھا دوسری فریق قوم کا۔ مالکان کا مطالبہ ہے کہ جب تک اس تاریخی، عرفی اور رواجی تقسیم کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا، کسی بھی کارروائی کو یک طرفہ اور غیر منصفانہ تصور کیا جائے گا۔
لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ والیِ سوات کے دور میں دریائے سوات کی باقاعدہ حد بندی نہیں کی گئی تھی، جس کی متعدد وجوہات تھیں۔
٭ پہلی وجہ:۔ سب سے پہلی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت دریائے سوات آج کی طرح بے قابو اور خطرناک نہیں تھا۔ دریا کا بہاو متوازن اور پُرسکون تھا۔ آج جیسی شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا نہیں تھا۔
٭ دوسری وجہ:۔ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ اُس زمانے میں دریا کے اندر کوئی کدائی نہیں کی جاتی تھی، نہ ریت اور بجری نکالنے کا کوئی سلسلہ ہی تھا۔ دریا اپنی قدرتی جغرافیائی حدود کے اندر بہتا تھا اور اس کا منظر نہایت دل فریب ہوتا تھا، جسے دیکھنے لوگ دور دور سے آتے تھے۔
٭ تیسری وجہ:۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ اگرچہ کبھی کبھار برسات کے موسم میں معمولی طغیانی آتی، یا کوئی ایک آدھ بار سیلاب بھی آیا کرتا، لیکن صورتِ حال ایسی نہ تھی، نہ ضرورت ہی تھی کہ مستقل بنیادوں پر دریا کی مکمل حد بندی کی جائے، یا دونوں کناروں پر حفاظتی پشتے تعمیر کیے جائیں۔
٭ چوتھی وجہ:۔ چوتھی اہم وجہ یہ تھی کہ والیِ سوات کے پاس وسائل محدود تھے۔ اس کے باوجود جہاں ضرورت محسوس کی گئی، وہاں اپنے وسائل کے مطابق موثر حفاظتی پشتے تعمیر کیے گئے، جن میں سے کئی پشتے آج بھی قائم و دائم ہیں اور خاص طرز کی بنیاد پر اپنی موجودگی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
٭ پانچویں وجہ:۔ پانچویں اہم وجہ یہ تھی کہ اُس وقت باقاعدہ پٹوار یا ریونیو نظام موجود نہیں تھا۔ پٹوار نظام باقاعدہ طور پر 1986ء کے بعد متعارف ہوا، جس کے بعد زمینوں کی ملکیت، حد بندی اور ریکارڈ سازی کا عمل شروع ہوا۔
اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ دریا کی کوئی مستقل اور متعین زمین نہیں ہوتی۔ دریائے سوات بھی وقت کے ساتھ اپنا رُخ بدلتا رہتا ہے۔ یہ کبھی دائیں جانب بہتا ہے، تو کبھی بائیں جانب۔ اسی فطری تغیر کے باعث مقامی اقوام نے زمینوں کی گرینڈ تقسیم کے وقت دریا سے نسبتاً دور واقع اُن زمینوں کو ترجیح دی، جو کاشت کے قابل تھیں اور جن پر دریا کا بہ راہِ راست اثر نہیں تھا۔ اُن زمینوں میں فصل اُگانا ممکن تھا، اس لیے اُن کی باقاعدہ تقسیم عمل میں لائی گئی۔
اس کے برعکس وہ زمینیں جو دریا کے بالکل قریب واقع تھیں، یا وہ جگہیں جن پر دریا عموماً بہتا رہتا تھا، یا جن میں صرف سردیوں کے موسم میں محدود کاشت ممکن تھی اور جہاں اکثر ’’سیم تھور‘‘ کا مسئلہ درپیش رہتا، اُن زمینوں کی باقاعدہ تقسیم نہیں ہوئی۔ نتیجتاً ایسی زمینیں مشترکہ اور غیر منقسم رہیں، جو آج بھی ’’مشترکہ‘‘حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔
یہی وہ بنیادی فرق ہے جس نے ’’مشترکہ خسرہ جات‘‘ اور ’’مشترکہ ملکیتی زمینوں‘‘ کا تصور پیدا کیا، جو آج کل مقامی لوگوں کے درمیان پیچیدہ تنازعات کی ایک جڑ ہے۔کیوں کہ یہ زمینیں مختلف قوموں کے نام مشترکہ حیثیت سے درج ہیں۔ کیوں کہ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ وہ زمینیں جنھیں کبھی کوئی شخص ایک بوری گندم کے بدلے لینے کو بھی تیار نہ تھا، آج کمرشل اہمیت اختیار کرچکی ہیں اور اُن کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اُن زمینوں کی معاشی قدر میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے، جس نے تنازعات کا ایک وسیع جال بچھا دیا ہے۔
لیکن دوسری جانب، موسمیاتی تبدیلیوں نے خطرناک رُخ اختیار کر لیا ہے۔ بار بار آنے والے شدید سیلابوں نے دریائے سوات کے اطراف کی کئی شامیلاتی زمینوں کو نگل لیا ہے۔ دریا کی چوڑائی اب تقریباً تین گنا ہوچکی ہے، جو کہ ایک قدرتی ارتقائی عمل ہے۔
حکومت نے وقتاً فوقتاً حفاظتی پشتے تعمیر کرنے کی کوشش کی، لیکن دریا کے شدید اور غیر متوقع بہاو نے اُن تمام اقدامات کو کئی دفعہ ناکام بنا دیا۔ حالیہ سیلابی ریلوں میں دریا میں پانی کا بہاو 3 لاکھ کیوسک سے بھی تجاوز کرگیا۔ ان سیلابوں کی شدت ایسی تھی کہ پہلے کبھی اس کا ریکارڈ تاریخ میں نہیں ملتا۔ خاص کر 2022ء کے سیلاب میں ہم نے ایک پیچیدہ اور خطرناک منظرنامہ دیکھ چکے ہیں۔ دریاؤں کی اس صورتِ حال کو سنبھالنا اب صرف انتظامی نہیں، بل کہ سائنسی و سماجی چیلنج بھی بن چکا ہے۔
اب عوام کی طرف سے یہ مطالبہ شدت اختیار کرچکا ہے کہ والیِ سوات کے دور کی باؤنڈری لائن کو دوبارہ بہ حال کیا جائے۔ اُن کا موقف ہے کہ سب سے پہلے دریائے سوات کی رواجی اور تاریخی جغرافیائی حدود کو دوبارہ واضح کیا جائے، اور شاملاتی خسرہ جات کو دبارہ بہ حال کیا جائے اور اس کے بعد ’’ریور پروٹیکشن ایکٹ‘‘ کے تحت دریائے سوات کے دونوں کناروں سے 200 فٹ کا ایک نالہ مختص کیا جائے۔ پھر جو تعمیرات یا تجاوزات اس نالے کی حدود میں آتی ہوں، اُنھیں بلاامتیاز مسمار کیا جائے، لیکن ملکیتی خسرہ جات کو نہ چھیڑا جائے۔ 
خیر، یہ مطالبہ بنیادی طور پر مینگورہ اور فضاگٹ کے زمین مالکان کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ دوسری طرف فضاگٹ سے لے کر کالام تک کے علاقوں میں نہ صرف اس مطالبے کو مسترد کیا جا رہا ہے، بل کہ وہاں کے مقامی افراد ’’ریور پروٹیکشن ایکٹ‘‘ کو تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ 
 اگر ایسا کیا جائے، تو مینگورہ کے مقام پر دریائے سوات کی چوڑائی صرف 700 فٹ رہ جائے گی۔ کیوں کہ تاریخی ریکارڈ کے مطابق والیِ سوات کے دور میں ایوب پُل کی چوڑائی تقریباً 700 فٹ تھی۔ مَیں نے اس حوالے سے بھی تحقیق کی کہ آیا والیِ سوات کے دور میں دریائے سوات میں کسی اونچے درجے کے سیلاب آیا کہ نہیں، لیکن کوئی ’’مستند سائنسی ڈیٹا‘‘ دست یاب نہ ہوسکا۔ البتہ اُس دور کی کچھ پرانی تصاویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلے 100 سال میں دریا میں ایسی کوئی شدید طغیانی نہیں آئی، جیسی آج دیکھی جا رہی ہے۔
اگر واقعی اس دور میں آج جیسا خطرہ درپیش ہوتا، تو برطانیہ کے اعلا انجینئروں کی موجودگی میں صرف 700 فٹ لمبائی پل ہرگز تعمیر نہ کیا جاتا۔ والی ِسوات ضرور دریائے سوات کے ممکنہ خطرات کو مدِ نظر رکھتے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ماضی میں دریا کی شدت اور خطرہ آج کی نسبت کم تھا۔ اس وقت نہ حفاظتی بند تھے، نہ پشتے، جس کی وجہ سے دریا کھلا پھیلا ہوا تھا۔ آس پاس کے علاقوں میں سیم تھور کا مسئلہ بھی شدید تھا اور اکثر قریبی دیہات دریا کے پانی سے متاثر ہوتے تھے۔ کیوں کہ آج کی طرح حفاظتی پشتوں کا جال موجود نہیں تھا۔
رفتہ رفتہ جب محکمہ ایری گیشن وجود میں آیا، تو دریا کے بہاو کو کنٹرول میں لایا گیا۔ مختلف مقامات پر پشتے اور حفاظتی بند تعمیر کیے گئے، جنھوں نے دریا کو قابو کیا۔ انھی اقدامات کے نتیجے میں آج دریا کے قریب کئی گاؤں آباد ہوچکے ہیں، ہوٹل اور ریسٹورنٹ قائم ہوچکے ہیں، جو سب محکمہ ایری گیشن کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔
یاد رکھنا چاہیے کہ والیِ سوات کے دور کے تمام حفاظتی پشتے 2009ء کے سیلاب میں بہہ گئے تھے۔ حتیٰ کہ ایوب پل جیسا مضبوط ڈھانچا بھی سیلابی ریلا برداشت نہ کرسکا اور مکمل طور پر سیلاب میں بہہ گیا۔ اب صرف نہروں کے ساتھ جڑے کچھ پرانے پشتے ہی باقی ہیں، جو اُس دور کی نشانی ہیں۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا مینگورہ کے مقام پر صرف 700 فٹ چوڑائی کے ساتھ دریائے سوات جیسے بے قابو دریا کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے؟ کیا یہ گنجایش تین سے چار لاکھ کیوسک جیسے ریکارڈ شدہ سیلابی ریلوں کے لیے کافی ہوگی؟ کیا اتنی تنگ گزرگاہ میں دریا کو محدود کرنا، حقیقتاً محفوظ ثابت ہوسکتا ہے اور کیا دریائے سوات کی جغرافیائی اور قدرتی حد بندی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ درست ہے؟
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ کیا واقعی محکمہ ایری گیشن کے پاس اتنے مالی وسائل موجود ہیں کہ وہ اس قدر وسیع و عریض اور مضبوط حفاظتی پشتے تعمیر کر سکے؟ ایسے پشتے جو نہ صرف دریا کے حالیہ بہاو کو برداشت کرسکیں، بل کہ مستقبل میں ممکنہ شدید طغیانی، خصوصاً 5 لاکھ کیوسک سے زائد بہاو والے سیلاب جن کے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور جس کا ذکر اپنی پچھلی دو تحریروں میں، مَیں نے تفصیل سے کیا ہے، کے دوران میں دریا کو قابو میں رکھ سکیں؟ 
اگرچہ نظریاتی طور پر یہ سب ممکن ہوسکتا ہے، لیکن زمینی حقائق اس خام خیالی کو یک سر مسترد کرتے ہیں۔ کیوں کہ محدود فنڈنگ، تکنیکی وسائل کی کمی اور موجودہ انفراسٹرکچر کی حالت دیکھتے ہوئے دریا کو کم چوڑائی میں قید کرنا صرف مشکل ہی نہیں، بل کہ خطرناک چیلنج ہوگا۔ کیوں کہ عام دنوں میں دریائے سوات میں پانی کا بہاو عموماً 5 ہزار سے 20 ہزار کیوسک تک رہتا ہے، جس کی وجہ سے ہم اکثر اس کی اصل طاقت کو بھول جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شدید بارشوں یا طغیانی کے دوران میں یہی دریا 3 لاکھ کیوسک سے بھی زیادہ بہاو اختیار کرلیتا ہے۔ 
اسی لیے ضروری ہے کہ دریائے سوات کی حد بندی معمول کے دنوں میں نہیں، بل کہ اُس وقت کی جائے، جب دریا شدید طغیانی کی زد میں ہو۔ کیوں کہ اصل خطرہ اُسی وقت ظاہر ہوتا ہے، اور وہی لمحہ حقیقت کا تعین کرتا ہے۔
اس کے علاوہ محکمۂ آب پاشی کو دریا کو قابو کرنے کے لیے سب سے زیادہ چیلنج درپیش ہیں، کیوں کہ سیلابی پانی کو روکنا دنیا بھر میں ایک مشکل چیلنج رہا ہے۔ یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک، جن کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی، وسائل اور منصوبہ بندی موجود ہے، وہ بھی بعض اوقات قدرت کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ اُن ممالک میں بھی ایسے الم ناک حادثات پیش آ چکے ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدرتی آفات کے سامنے انسانی ٹیکنالوجی کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ لہٰذا، اَب ضرورت اس امر کی ہے کہ دریائے سوات کی حد بندی سائنسی اور جدید انجینئرنگ کی بنیاد پر کی جائے، خاص کر شدید طغیانی کے دوران میں اور دریا کو ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ چوڑا رکھا جائے، تاکہ آیندہ کسی بھی طغیانی کی صورت میں پانی کو قدرتی گزرگاہ میسر ہو اور انسانی جان و مال کو کم سے کم نقصان پہنچے۔ 
ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دریامیں ہر قسم کی مائننگ، خصوصاً ریت اور بجری نکالنے کا عمل مکمل طور پر بند کیا جائے۔ کیوں کہ یہی عمل دریا کی فطری ساخت کو متاثر کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، دریا کے اطراف مخصوص مقامات پر موثر حفاظتی بیریئرز نصب کیے جائیں، تاکہ کسی بھی ممکنہ ہنگامی صورتِ حال سے نمٹا جا سکے۔
جہاں تک اینٹی انکروچمنٹ آپریشن کا تعلق ہے، تو اس میں کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ کارروائیاں شفاف اور غیر جانب دار ہونی چاہییں، تاکہ عوام میں احساسِ محرومی پیدا نہ ہو اور انتظامیہ کے خلاف مزاحمت کی فضا جنم نہ لے۔ قانون کی عمل داری تبھی ممکن ہے، جب سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے اور فیصلے انصاف پر مبنی ہوں۔
 ..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے