مولانا خانزیب کی شہادت کی وجہ

Blogger Zubair Torwali

دنیا کی تاریخ میں مذہبی پیش واؤں کا کردار نمایاں رہا ہے۔ سلطنتوں کا قیام ہو کہ ریاستوں کی بقا و استحکام…… ان راہ نماؤں نے اس میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔
اسی طرح طبقۂ صوفیا کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔ صوفیا کو عموماً سیاست سے دور سمجھا جاتا ہے، تاہم تاریخ ہمیں اس سے مختلف کہانی سناتی ہے۔ اسلامی دنیا میں سلطنتوں اور ریاستوں کی تعمیر اور ترقی میں انھی علما اور صوفیا کا کردار ہمیشہ سے نمایاں ہی نہیں، بل کہ کلیدی بھی رہا ہے۔ کہیں پہ یہ بادشاہ گر بنے ہیں، تو کہیں پہ انھی بادشاہتوں کو علمی و فقہی جواز فراہم کیا ہے۔
علما و صوفیائے کرام کی عزت و احترام کی وجہ سے کئی ریاستیں قائم بھی ہوئی ہیں۔ سب سے بڑی مثالیں بر صغیر میں برطانوی دور اور اس سے پہلے کی سیکڑوں مسلم ریاستیں ہیں۔ ریاستِ سوات کا قیام بھی ایک صوفی مولوی، اخوند آف سوات، کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔
مولوی نے دونوں طرح کے کام کیے ہیں۔ جہاں ایک طرف ریاستی جبر کو مذہبی جواز فراہم کرکے دوام بخشا ہے، وہاں پہ اس کی تاریخ مذکورہ جبر کو توڑنے کی جد و جہد سے ممیز بھی ہے۔ جہاں ایک طرف انھوں نے مذہب کو بہ زورِ شمشیر پھیلانے کی کوشش کی ہے، وہاں پہ مذہب کو مقامی لوگوں کے لیے اپنے کردار کی وجہ سے قابلِ قبول بھی بنایا ہے۔ کہیں پہ بیرونی حملہ آوروں کا ساتھ دیا ہے، تو کہیں پہ اُن کے خلاف جنگوں کی قیادت بھی کی ہے۔
مولوی نے اگر ایک طرف فکری جمود کو دوام بخشا ہے، تو دوسری طرف انھی کی برادری کے علما نے اُس فکری جمود کو توڑنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ جہاں انھوں نے ریاست کو کندھے فراہم کیے ہیں، وہی پہ ان کندھوں پر اس جبر کے خلاف علمِ بغاوت بھی بلند کیا ہے۔
مولوی نے تہذیب کو متاثر کیا ہے، بل کہ یہ کہنا بہ جا ہوگا کہ مسلم دنیا میں تہذیب کا تصور مولوی کے بغیر ممکن نہیں رہا ہے۔ مغرب جب 16ویں صدی سے کلیسا سے آزاد ہوکر اپنی تہذیب کو ایک اور رُخ دے رہا تھا، تب مسلمانوں کی دنیا میں تہذیب، ادب، علوم اور خواندگی کے پرچم مولوی کے کندھوں پر تھا۔ مولوی ہی نے اُس مذہبی دائرے میں رہ کر تہذیب کو پروان چڑھایا۔ مولوی ہی کی وجہ سے بعض اقوام میں زمین، دھرتی اور سیاست کے امور کی انجام دہی اُس وقت کے لوگوں کے لیے احسن رہی۔ مثال کے طور پر سوات میں یوسف زئیوں کی آمد کے ساتھ زمین کی تقسیم پر جو مسائل پیدا ہوئے، اُن کو ایک مولوی ’’شیخ ملی‘‘ ہی نے اپنے دفتر کے ذریعے حل کیا اور ایک ہمہ وقت جنگوں پر تیار قوم کو اندرونی جنگوں سے بچائے رکھا۔
چوں کہ اسلام اپنے یک ساں بنیادی اُصولوں کو لے کر ہمیشہ سے بہت متنوع رہا ہے، اس لیے اسی کے اندر فقہا، علما اور صوفیا کی فکری جہتیں مختلف رہی ہیں۔ تاہم تاریخ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو فکری مکتب کسی بادشاہِ وقت کے لیے زیادہ کارگر رہا، اُس کو پنپنے دیا گیا اور دوسرے مکاتبِ فکر کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔ روشنیہ تحریک کے بانی بایزید انصاری المعروف پیر روشن اور اخوند درویزہ کی چپقلش کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جس کو سلطنت کی سرپرستی رہی، وہ کامران رہا اور جو اس کے مخالف گیا، اس کو شکست ہوئی۔
مولوی نے سیاسی امور میں اور مزاحمت میں الگ کردار بھی ادا کیا ہے۔ اکثر اوقات اس کا سیاسی تدبر مغرب میں پڑھے لکھے لوگوں سے نہایت مختلف ہی نہیں، بل کہ زمینی حقائق کے مطابق بھی رہا ہے۔ برصغیر میں متحدہ ہندوستان کی مذہب کے نام پر تقسیم کی مخالفت علما کے ایک بڑے حلقے نے کی تھی۔ ابولکلام آزاد ہو کہ مولانا حسین احمد مدنی، مذہبی علما ہوکر بھی مذہب کو قومیت کی واحد بنیاد نہیں سمجھتے تھے۔
دوسری جانب علامہ اقبال اور قائد اعظم جیسے پڑھے لکھے راہ نما مذہب کو قومیت سازی کی واحد کلید سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کے بیچ ہونے والی خط کتابت پڑھنے لائق ہے۔ اسی طرح جو پیشین گوئیاں مولانا آزاد نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کی تھیں، وہ ساری درست ثابت ہورہی ہیں۔
مولوی نے مغربی استعمار کے لیے بھی اپنا کاندھا فراہم کیا ہے۔ کئی جید جامعات نے مغرب…… خصوصاً امریکی استعمار کی سوویت یونین کے خلاف جنگ اور اس کے بعد تہذیبوں کے تصادم کے نظریے میں امریکہ بہادر کی بڑی معاونت کی ہے۔ اس عمل میں بہت معروف جامعات بھی شامل رہی ہیں۔
یہ مغربی استعماری سیاست اور اس سے جڑی فکر سے جڑت کی وجہ ہی ہے کہ بہ شمول پاکستان پوری مسلم دنیا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے نظریات و عملیات پروان چڑھے ہیں، اور مغرب ہی کو بہانہ ملا ہے کہ وہ ان ملکوں پر چڑھ دوڑے۔ ان میں کئی اب اسی استعمار کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، تو مسلم دنیا کے اندر ہی دوسرے گروہ بنائے گئے ہیں۔ مصر ہو، شام ہو، فلسطین ہو، افغانستان کہ پاکستان سب جگہ ایسا ہورہا ہے۔
جو مولوی ایسی استعماری لکیروں سے آزاد ہونا چاہتا ہے، اُن کو راستے سے ہٹایا جاتا ہے، یا کنارہ کشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بر صغیر میں اس کی بڑی مثال مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا حسین احمد مدنی رہے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان میں یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مولانا حسن جان ہو کہ مولانا خان زیب، سب کو اسی لکیر کو پار کرنے کی سزا دی گئی ہے۔ جو کبھی اس استعمار کے راستے سے الگ ہوئے اُن کو بھی نہیں بخشا گیا۔ مفتی منیر شاکر کی شہادت اس دعوے کا بین ثبوت ہے۔
مولوی سے توقع نہیں کی جاتی کہ وہ اس استعماری ریاستی بیانیے سے متبادل بات کرے۔ اس وجہ سے جاوید احمد غامدی کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔ کئی اہم علما کو قتل کردیا گیا۔ جوں ہی بااثر مبلغ مولانا طارق جمیل نے بادشاہوں کے قصیدے پڑھنے چھوڑ دیے، اُس کو کنارہ کشی پر مجبور کیا گیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بعض مراکز میں کنارہ کش کروانے پر اکتفا کیا جاتاہے، جب کہ دیگر کئی پس ماندہ علاقوں میں تو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔
خان زیب مولانا تھے، مگر دھرتی اور اس کے مسائل سے جڑے ہوئے تھے۔ وہ اسی استعماری قوت کی چالاکی کو سمجھتے تھے۔ زمین کی، وسائل اور مقامی اختیار کی بات کرتے تھے۔ مولانا تھے، تو اس لیے اُنھیں کئی عام لوگ سنتے بھی تھے۔ اپنی پارٹی میں سب سے زیادہ متحرک تھے۔ عوامی تھے اور عوام ہی کے ساتھ ہوتے تھے۔ لوگوں کو اُمید تھی کہ اُن کے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ کا سابقہ آتا ہے، تو شاید اُن کو معاف کردیا جائے گا…… مگر لوگوں کو کیا پتا کہ جو مولانا دھرتی، امن، وسائل اور اختیار کی بات کرتا ہے، وہ استعمار کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اے این پی جیسی جماعت میں اُن کا ہونا کئی لوگوں کو شاید عجیب بھی لگتا تھا، مگر اسی طرح جماعتوں میں مولانا حسرت موہانی اور مولانا بھاشانی بھی ہوا کرتے تھے۔
مولوی اور عام لوگوں کے لیے حالات 1980ء سے پہلے اس قدر خراب نہیں تھے۔ خود سوچیں کہ 1980ء کے بعد کیا ہوا، جس کی وجہ سے پوری ریاست میں صرف ایک ہی نقطۂ نظر کو فروغ دیا گیا اور کس کے ایما پر دیا گیا…… جس کو ہم ’’جہاد‘‘ اور ’’اسلام‘‘ سمجھتے رہے؟ اس پر سوچنا چاہے کہ کہیں ساقی نے اس میں کچھ اور نہ ملا دیا ہ……! ساقی وہی پہ ہے اور دعوتیں کرتا ہے۔ ساقی کے مے کدے میں نئے پیمانے چڑھائے جارہے ہیں۔ نئے جام بھرے جارہے ہیں، پر ساقی وہی پرانا ہے۔
ہوش یار رہیں اور اپنا خیال رکھیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے