اگیگا کی تحریکیں، دھرنے اور بے نتیجہ احتجاج

Blogger Engineer Miraj Ahmad

آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) خیبر پختونخوا کے سرکاری ملازمین کی نمایندہ تنظیم ہے، جو گذشتہ کئی برسوں سے مسلسل احتجاج، دھرنوں اور مطالبات کے سلسلے میں سرگرم رہی ہے۔ ان تحریکوں میں شامل افراد کا تعلق مختلف محکموں سے ہوتا ہے، جن کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے: معاشی انصاف، بنیادی مراعات اور روزمرہ کی ضروریات کے مطابق تنخواہوں میں اضافہ۔
یہ مطالبات اگرچہ ہر اعتبار سے جائز اور آئینی ہیں، مگر ان کے جواب میں اکثر حکومت کی طرف سے سردمہری، تاخیری حربے اور زبانی وعدوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
جب سرکاری ملازمین مہنگائی کے ہاتھوں پس کر سڑکوں پر آتے ہیں، تو یہ محض تنخواہ کی کمی کی شکایت نہیں ہوتی، بل کہ یہ ایک ایسا احتجاج ہوتا ہے، جو برسوں کی نظراندازی، عدم شنوائی اور بداعتمادی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ وہ دفاتر کے تالے بند کر دیتے ہیں، پریس کلب کے سامنے کیمپ لگا لیتے ہیں، ہاتھوں میں پلے کارڈ اور زبانوں پر صرف یہ فقرہ ہوتا ہے: ’’ہمیں سنا جائے!‘‘
مگر افسوس کہ جو لوگ سننے والے ہوتے ہیں، وہ یا تو مصروف ہوتے ہیں یا دانستہ خاموش۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ مذاکرات کے بعد وقتی طور پر احتجاج ختم کر دیا گیا، مگر بعد میں کیے گئے وعدے کاغذی کارروائی تک محدود رہے۔ گذشتہ مہینے 25 جون کو ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کا فقید المثال دھرنا جاری تھا کہ اچانک اگیگا کے چیئرمین وزیر زادہ اور جنرل سیکرٹری نیاز علی خٹک نے دھرنا بغیر کوئی تحریر معاہدہ کے ختم کیا…… اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ گذشتہ روز فنانس ڈیپارٹمنٹ نے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا، جس میں ملازمین کو صرف 15 فی صد ڈسپیرٹی ریڈکشن الاؤنس دیا اور وہ بھی 2017ء کے انیشل بیسک پے پر، جب کہ باقی صوبوں نے 30 فی صد ڈسپیرٹی الاؤنس دیا اور وہ بھی 2022ء کی رننگ بیسک پے پر۔ یہاں ہمیشہ دو دستور نظر آتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے لیے الگ اور باقی ملک کے لیے الگ۔
جب ایک ملازم بار بار دھوکا کھاتا ہے، تو اس کی اُمید مر جاتی ہے، اور وہ صرف نظام سے نہیں، بل کہ اپنے پیشے سے بھی بدظن ہو جاتا ہے۔ یہ بدظنی نہ صرف کام کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے، بل کہ اداروں کے اندر ایک خاموش اضطراب کو جنم دیتی ہے۔ حکومتی حلقے اکثر ان احتجاجوں کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگیگا کے مطالبات کو ’’منصوبہ بندی کے تحت شورش‘‘ کہا جاتا ہے، گویا وہ سرکاری ملازم نہیں، ریاست دشمن عناصر ہوں۔ اس سوچ نے مسائل کے حل کی بہ جائے اُنھیں الجھایا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ملازمین احتجاج کرتے ہیں، بل کہ یہ ہے کہ مسائل کو سنجیدگی سے سنا نہیں جاتا۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان دھرنوں کے نتیجے میں اگر کچھ مل بھی جائے، تو وہ وقتی ریلیف ہوتا ہے، دیرپا اصلاحات کی طرف قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ ایسے میں تحریکیں صرف ایک رسمی مشق بن جاتی ہیں، جن کا اختتام نہ کوئی مستقل حل ہوتا ہے نہ بہتری کی امید۔ سرکاری ملازمین کو یقین ہو چکا ہے کہ اُن کی آواز جب تک بلند نہ ہو، کوئی سنتا نہیں…… مگر جب مسلسل بلند آواز بھی سنائی نہ دے، تو مایوسی ایک زہر کی طرح دل و دماغ میں سرایت کر جاتی ہے۔
اس ساری صورتِ حال میں سب سے زیادہ نقصان ادارہ جاتی استحکام کا ہوتا ہے۔ ایک ریاست جب اپنے ملازمین کو تحفظ، عزت اور برابری کا احساس نہیں دلاتی، تو وہ کیسے توقع رکھ سکتی ہے کہ یہی افراد دیانت داری اور جذبے کے ساتھ اپنی ذمے داریاں نبھائیں گے؟ جب ریاست خود اپنے کارکنوں سے بے وفائی کرے، تو وفاداری کی اُمید محض ایک خواب رہ جاتی ہے۔
یہ وقت ہے کہ ان تحریکوں سے سبق لیا جائے، صرف وعدے کرنے کے بہ جائے عملی اقدامات کیے جائیں۔ دھرنوں کو طاقت سے دبانے کے بہ جائے مسائل کو مذاکرات سے حل کیا جائے۔ ریاست اور ملازم کے درمیان اعتماد کی بہ حالی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ورنہ ہر چند ماہ بعد ایک نیا دھرنا، ایک نئی تحریک اور ایک نئی مایوسی ہمارے سسٹم کا حصہ بن کر رہ جائے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے