اس وقت دریائے سوات پر تجاوزات قومی سطح پر سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔ روزانہ میڈیا میں کہیں نہ کہیں دریائے سوات کے متعلق کوئی نہ کوئی خبر نظر سے گزرتی ہے…… کبھی تجاوزات کی، تو کبھی سیلابی ریلے سے ہونے والے تباہ کاریوں کی۔
میری ذاتی مشاہدے کے مطابق، ہر مون سون سیزن میں یہ مسئلہ ایک نئی بحث کا روپ دھار لیتا ہے، مگر افسوس کہ یہ بحث جذباتی اور وقتی ہوتی ہے۔ اس میں سائنسی بصیرت کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔
جب بھی انتظامیہ تجاوزات کے خلاف قدم اُٹھاتی ہے، تو عوامی حلقوں میں غم و غصے کی لہر اُٹھ جاتی ہے…… اور اس عمل میں سب سے منفی کردار مقامی سیاسی راہ نماؤں اور میڈیا کا ہوتا ہے۔ وہ عوام کو ممکنہ موسمیاتی خطرات (سائنسی نقطۂ نظر) سے آگاہ کرتے ہیں اور نہ اس حساس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہی ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دریائے سوات کے کنارے عوام بے دریغ تعمیرات کر رہے ہیں۔ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری سے ہوٹل، ریسٹورنٹس اور گیسٹ ہاؤسز قائم کیے جا رہے ہیں۔ حالاں کہ یہ تمام تعمیرات ایک شدید قدرتی آفت کے دہانے پر موجود ہیں۔ اگر 2022ء کے سیلاب کو مثال کے طور پر لیں، تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دریا کے قریب واقع تقریباً 95 فی صد ہوٹل تباہی کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ فضاگٹ میں تو تمام ریسٹورنٹس مکمل طور پر پانی میں بہہ گئے تھے…… مگر افسوس کہ محض تین سال گزرنے کے بعد ہم وہ تباہی بھول گئے۔ بھولنا ویسے بھی انسان کی فطرت ہے۔ دوسری جانب، منافع کی دوڑ اور زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی ہوس نے صورتِ حال کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔
یہ عوام کی خوش قسمتی تھی کہ اُس وقت سول انتظامیہ نے بروقت وارننگ جاری کی، کیوں کہ وہ سیلاب اچانک طغیانی نہیں، بل کہ تدریجی شدت کی صورت میں آیا تھا…… لیکن اگر یہی ریلا اچانک آتا، تو میرا مشاہدہ کہتا ہے کہ10 ہزار سے زیادہ جانیں ضائع ہو سکتی تھیں۔ کیوں کہ مدین سے لے کر مہوڈنڈ تک دریا کے کنارے واقع دیہات اور سیاحوں سے بھرے ہوٹل لمحوں میں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ کچھ مقامات پر دریا نے رُخ موڑ کر دریا کے آس پاس تعمیرات کو ملیامیٹ کر دیا، جن کی کوئی نشانی باقی نہیں بچی تھی۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ 2022ء کے سیلاب میں دریا کا بہاو تقریباً 3 لاکھ کیوسک تک پہنچا، لیکن 15 گھنٹوں بعد اس میں 40 فی صد کمی آئی۔ تاہم اس کمی کے باوجود بھی، تحصیلِ بابوزئی کے ’’تختہ بند‘‘ اور ’’اوگدو‘‘ جیسے علاقوں میں محض چند فٹ کے پشتے ٹوٹے تو لمحوں میں سیکڑوں گھر پانی کی لپیٹ میں آگئے۔ اگر مذکورہ طغیانی صبح کے وقت آتی، جب سیلاب کی شدت زیادہ تھی، تو تباہی ناقابلِ تصور ہوتی۔
اب اگر 3 لاکھ کیوسک پانی اتنی بربادی لاسکتا ہے، تو سوچیں کہ اگر (خدا نہ خواستہ) سیلاب کا حجم 5 لاکھ کیوسک تک جا پہنچے، تو کیا ہوگا؟ یہ وہ خطرہ ہے، جس کا تصور بھی ہمارے وہم و گمان سے باہر ہے ۔
یہ سوال ذہنوں میں اُٹھتا ہے کہ آخر 5 لاکھ کیوسک پانی کا امکان کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے عالمی حقائق میں ملتا ہے۔ پاکستان، گلوبل وارمنگ کے خطرات کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے، جب کہ شمالی پاکستان، خصوصاً خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان، سب سے زیادہ متاثرہ خطے ہیں۔ صرف پاکستان میں 725 3 گلیشیئر موجود ہیں، جن میں زیادہ تر گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا (خصوصاً سوات، دیر، چترال، کوہستان) اور ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں واقع ہیں۔
سوات کے گبرال، اُتروڑ اور اوشو گلیشیئرز، مذکورہ گلیشیئرز میں سرِفہرست اور ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ان گلیشیئرز کا پانی بہ راہِ راست دریائے سوات میں شامل ہو رہا ہے، اور ہر 10 سال میں ان کے پگھلنے کی شرح میں 10 تا 20 فی صد اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی نہیں، بل کہ ہر دہائی میں ایک شدید گلیشیائی طغیانی (GLOF) اور غیر متوقع موسمی بارشیں دریائے سوات کو کئی گنا زیادہ خطرناک بنا دیتی ہیں۔
گلوبل وارمنگ، گلیشیئر کا پگھلاو، لینڈ سلائیڈنگ اور مسلسل بارشیں، یہ سب مل کر ایک ایسے سیلابی خطرے کو جنم دیتا ہے، جس کا نتیجہ ہم 2022ء میں دیکھ چکے ہیں…… جو آنے والے وقتوں میں مزید شدت اختیار کرے گا۔
دریائے سوات کا جغرافیہ بھی سیلابی خطرے کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر مہوڈنڈ سے چکدرہ تک اس کی بلندی 2865 میٹر سے گھٹ کر 987 میٹر تک پہنچ جاتی ہے، یعنی پانی کی گرتے ہوئے نیچے آنے کی رفتار بہت تیز اور خطرناک ہوجاتی ہے، خاص کر جب کوئی گلیشئر پھٹتا ہے۔ اس کے ساتھ راستے میں سیکڑوں ندی نالے، لینڈ سلائیڈنگ اور شدید بارشیں دریا کو مزید پُرخطر بنا دیتے ہیں۔
قارئینِ کرام، یہ حقیقت ذہن نشین رکھیں کہ ہر دہائی میں ایک تباہ کن سیلاب کا قدرتی ماحول خود بہ خود تیار ہوتا ہے۔ ہر آنے والا سیلاب پچھلے سیلاب سے کم از کم 20 فی صد زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔ ہمارے پاس ڈیٹا تو ہے، مگر منصوبہ بندی ندارد۔
موجودہ حفاظتی پشتے 5 لاکھ کیوسک کے سیلاب کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ کئی جگہوں پر تو پشتے موجود ہی نہیں۔ انتظامیہ پر سیاسی دباو ہے اور میڈیا صرف ریٹنگ کے چکر میں ہے۔ جذباتی بیانات، چیختی رپورٹیں، مگر ’’سائنسی شعور‘‘ ندارد۔ سیاست دانوں کی ترجیحات تو عوامی جذبات سے کھلواڑ ہیں، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم عوام ہوش کے ناخن لیں۔ دریاؤں کے کنارے کنکریٹ کی تعمیرات محض بے وقوفی نہیں، بل کہ خودکشی کا اعلان ہیں۔ ہمیں ایک اجتماعی، سائنسی اور عملی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی، ورنہ ہر سال ایک نئی تباہی ہمارا مقدر ہوگی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










