اجتماعی بیداری کا نیا باب

Blogger Hilal Danish

قبائلی اضلاع کی فضا ایک بار پھر اضطراب میں ہے۔ وادیِ تیراہ اور شمالی وزیرستان، جو برسوں سے دہشت گردی، فوجی آپریشنز، جبری نقلِ مکانی اور ریاستی بے حسی کا سامنا کرتے چلے آ رہے ہیں، اَب خود امن کی پکار بن کر اُبھر رہے ہیں۔ یہ محض احتجاجی مظاہرے نہیں، بل کہ اجتماعی بیداری کے نئے باب کی علامت ہیں، جن میں مقامی قیادت، عوامی نمایندے اور مذہبی راہ نما ایک واضح بیانیہ کے ساتھ میدان میں آئے ہیں: ’’اب مزید جنگ نہیں ہمیں امن اور وقار کے ساتھ جینے دو!‘‘
٭ تیراہ میدان،ایک بار پھر آزمایش میں:۔ خیبر کی بلند و بالا پہاڑیوں میں واقع وادیِ تیراہ ایک بار پھر کشیدگی اور بے یقینی کی لپیٹ میں ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں میں وہاں مسلح جھڑپوں، شدت پسند گروہوں کی نقل و حرکت اور مقامی افراد کی جبری نقلِ مکانی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ عوامی سطح پر بے چینی نے اُس وقت سنگین شکل اختیار کی، جب مختلف علاقوں میں خوف کے مارے سیکڑوں خاندان اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوگئے۔
اس صورتِ حال کے پیشِ نظر مقامی قبائلی عمائدین، مشران، علمائے کرام، سماجی کارکنوں اور مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نمایندوں نے ایک ہمہ جہت امن جرگہ طلب کیا۔ اس جرگے میں تحصیل باڑہ اور تیراہ سے تعلق رکھنے والے تمام اہم قبائل کے نمایندے شریک ہوئے، جب کہ ضلعی انتظامیہ کے بعض افسران نے بھی شرکت کی۔
٭ جرگہ کے شرکا کا متفقہ اعلامیہ:۔ تیراہ کے عوام مسلسل قربانیوں سے گزرے ہیں۔ ہم نے شدت پسندی کے خلاف ریاست کا ساتھ دیا، اپنا گھر بار چھوڑا، اپنے بچے کھوئے، مگر آج بھی ہمیں تحفظ ملا، نہ انصاف۔ اگر اب بھی ہمیں دھکیلا گیا، تو صبر کے بندھن ٹوٹ سکتے ہیں۔
مقررین نے مطالبہ کیا کہ حکومت اور فوج فوری طور پر وادی میں امن و امان کی صورتِ حال کو بہ حال کرے، شدت پسند گروہوں کی موجودگی ختم کرے اور بے گھر ہونے والے خاندانوں کی واپسی و بہ حالی کو یقینی بنائے۔
٭ شمالی وزیرستان، عوامی بیداری کا تاریخی اجتماع:۔ دوسری طرف شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی میں جمعیت علمائے اسلام تحصیل میرعلی کے زیرِ اہتمام ایک تاریخی عوامی اجتماع منعقد ہوا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں مقامی قبائل شریک ہوئے۔ اس اجتماع کی خاص بات مولانا احمدالدین کا وہ ولولہ انگیز خطاب تھا، جس میں اُنھوں نے ریاست، عسکری ادارے اور مذہبی شدت پسند گروہوں تینوں کو دو ٹوک پیغام دیا کہ فوج ہو یا طالبان، ہم سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان مزید کسی آپریشن، جبری نقلِ مکانی یا خوف کی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اُنھوں نے کہا کہ وزیرستان پر دہائیوں سے جنگ مسلط ہے، جس نے یہاں کے باسیوں کو نہ صرف معاشی طور پر تباہ کیا، بل کہ اُنھیں نفسیاتی، تعلیمی اور سماجی اعتبار سے بھی پس ماندہ کر دیا ہے۔
مولانا نے اسلام کے نام پر اسلحہ اُٹھانے والوں کو بھی تنبیہ کی کہ اگر اس پُرامن عوامی تحریک کا رُخ تمھاری طرف موڑ دیا گیا، تو تمھارا کیا موقف ہوگا؟ نفاذِ شریعت کے مقدس نعرے کی آڑ میں اگر تم مظلوموں کے قاتل نکلے، تو قوم معاف کرے گی نہ خالق۔
قارئین! اس اجتماع نے پورے وزیرستان کو ایک نئی آواز عطا کی ایک ایسی آواز جو نہ مصلحت میں لپٹی ہے ، نہ خوف میں جکڑی۔
٭ ریاست کی خاموشی اور عوام کی پکار:۔ دونوں اجتماعات ایک اجتماعی پیغام دے رہے ہیں کہ ریاستی سطح پر اعتماد کا بحران شدید ہوچکا ہے۔ عوام سوال کر رہے ہیں کہ اگر ہم نے ہر جنگ میں قربانیاں دیں، ہر مطالبے پر خاموشی اختیار کی، ہر بار واپس جا کر دوبارہ زندگی شروع کی، تو ہمیں مسلسل آزمایش میں کیوں رکھا گیا؟
قبائلی علاقوں میں گذشتہ 20 برسوں کے دوران میں درجنوں فوجی آپریشن، ہزاروں شہادتیں، لاکھوں کی ہجرت اور اربوں روپے کا نقصان ہوا…… مگر اس سب کے باوجود آج بھی وہاں خوف، غیر یقینی، عسکری موجودگی اور آئینی حقوق کی عدم فراہمی جوں کی توں ہے۔
٭ ایک فیصلہ کن موڑ:۔ یہ جرگے اور اجتماعات قبائلی علاقوں کی ایک نئی روح کی عکاسی کر رہے ہیں، جہاں عوام اب محض ’’سیکورٹی زون‘‘ نہیں، بل کہ ’’بااختیار شہری‘‘ بننا چاہتے ہیں۔ وادیِ تیراہ اور وزیرستان کے باسی یک زبان ہیں کہ اب اگر کوئی جنگ ہوگی، تو وہ امن کے حق میں ہوگی بندوق کے نہیں…… آئین اور قانون کے حق میں ہوگی!
٭ فیصلہ کن وقت:۔ ریاست کے لیے یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ اگر ان آوازوں کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا، تو یہ صرف جرگوں کی آوازیں نہیں رہیں گی، یہ ایک نئی مزاحمت کا آغاز بھی بن سکتی ہیں۔
جب وادیوں کی خاموشی نعرہ بن جائے اور مظلوموں کی آنکھوں میں اُمید چمکنے لگے، تو سمجھ لیجیے کہ تاریخ ایک نیا موڑ لے رہی ہے۔ آج تیراہ اور وزیرستان بول رہے ہیں، کیا ریاست سننے کو تیار ہے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے