ریاستِ سوات کے ملازمین اور پاکستانی سیٹ اَپ

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
سوات کے انضمام کے بعد، نئے نظام کے تحت کام کرتے ہوئے، نچلے عملے نے اس بھائی چارے، قربت اور خاندانی ماحول کی کمی محسوس کی، جو ریاستی افسران اور ملازمین کے درمیان موجود تھی۔ ریاست کے زیادہ تر افسران اپنے ماتحتوں کے ساتھ ایک سرپرست یا والد کی مانند برتاو کرتے تھے۔ معدودے چند متکبر اور مغرور افراد اس سے مستثنا تھے، جو کچھ حد تک مغرور تھے اور اپنے ماتحتوں سے ایک واضح فاصلہ رکھتے تھے۔ آئیے، اُس وقت کی حقیقی صورتِ حال کو واضح کرنے کے لیے ایک دو مثالیں پیش کرتے ہیں:
جب ریاستی افواج 1930ء کی دہائی کے وسط میں انڈس کوہستان کی طرف پیش قدمی کر رہی تھیں، تو میرے والد اور چچا اس سلسلے میں گھر سے دور تھے۔ اسی دوران میں میرے والد کی پہلی بیوی اور ایک بیٹا سوات میں ہیضے کی وبا میں فوت ہو گئے۔ والد صاحب نے اپنی نابینا حافظِ قرآن خالہ، ایک بیٹے اور دو سالہ بیٹی کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ انڈس کوہستان کے سفر سے واپس آنے کے بعد، میرے والد اپنی ننھی بیٹی، تقریباً آٹھ سالہ بیٹے اور نابینا خالہ کے ساتھ سیدو شریف منتقل ہوگئے اور افسر آباد میں آباد ہوگئے۔ اس وقت ان کے قریبی پڑوسی، گوگدرہ کے کمان افسر جانس پاچا تھے۔
عام لوگوں کے پاس گاڑی نہیں ہوتی تھی، سوائے ریاست کے زیرِ ملکیت ٹرکوں اور شاہی خاندان کی کاروں کی…… لیکن آسودہ حال لوگوں نے اپنی استعمال کے لیے گھوڑے یا تانگے رکھے تھے۔ جانس پاچا کے پاس بھی ایک تانگا تھا، جسے ایک سائس چلاتا تھا۔ ایک دن، جب میرے والد اپنے دفتر ’’فوجی دفتر‘‘ اور ان کا بیٹا شیر خان سکول گیا ہوا تھا۔ گھر میں دو سال کی بچی اور میرے والد کی نابینا خالہ موجود تھیں۔ بچی آگ کے قریب کھیل رہی تھی۔ اچانک اُس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور وہ رونے لگی۔ نابینا دادی نے شعلوں کو بجھانے کی کوشش کی، لیکن اسے آگ بجھانے کے لیے کچھ نظر نہیں آیا۔ مختصر یہ کہ چھوٹی بچی جل کر انتقال کرگئی۔ پڑوسی عورتیں آئیں، لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ میرے والد کو گھر بلایا گیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ مردہ بچی کو تدفین کے لیے ہمارے گاؤں ابوہا تک کیسے لے جایا جائے، جو سیدو شریف سے چوبیس کلومیٹر دور تھا۔ کمان افسر جانس پاچا نے میرے والد سے کہا کہ وہ پریشان نہ ہوں۔ انھوں نے اپنے سائس سے کہا کہ تانگا تیار کرے اور میرے والد، ان کے بیٹے اور خالہ کو ابوہا لے جائے۔ اس طرح انھوں نے چھوٹی بچی کو ابوہا لے جاکر ہمارے اپنے پلاٹ میں، جہاں اب میرا گھر ہے، دفن کر دیا۔
اس قسم کی ہم دردیاں ان افسران کے طرزِ عمل میں نظر نہیں آئیں، جو 1969ء کے بعد نئی ضم شدہ علاقے سوات میں حکم رانی کے لیے آئے تھے، ان میں سے تقریباً سبھی مغرور، گھٹیا اور ’’نوکر شاہی دیو‘‘ (Bureaucratic Giants) تھے۔ وہ اپنے آپ کو فاتح سمجھتے تھے اور سابق ریاستی ملازمین، جو کہ صوبائی "P.W.D” میں ضم ہوچکے تھے، کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ وہ بہانے بہانے ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ انضمام کے منصوبے کے سربراہ اکثر توہین آمیز اور پریشان کن سوالات پوچھتے تھے۔ مجھے بھی یہ سب برداشت کرنا پڑا۔ کیوں کہ مَیں اپنے دفتر، یعنی ریاستی پی ڈبلیو ڈی کی نمایندگی کر رہا تھا۔ ایک دن اس نے مجھ سے اوورسیرز کے ڈپلومے طلب کیے، جو اس عہدے کے لیے بنیادی ضرورت تھی۔ مَیں نے اسے سوات کے حکم ران کا حکم نامہ دکھایا، جس میں ہم چھے افراد کو اوورسیرز کے عہدے پر ترقی دینے کا حکم صادر کیا گیا تھا۔ اس نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مَیں بے قابو ہوگیا اور جو کچھ میرے منھ پر آیا، کَہ دیا۔ اس نے مجھے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی، لیکن میں اسے حیران چھوڑ کر اُٹھ کر چلا گیا، لیکن میرے اس اشتعال کا مُثبت اثر ہوا، کیوں کہ چند دن بعد، صوبائی حکومت نے اوورسیرز کے لیے کوالیفکیشن کی رعایت کا حکم جاری کیا۔
مجھے اجازت دیں کہ میں نئے آئے ہوئے افسروں کی ایک اور مثال شیئر کروں۔ افضل خان لالا اس وقت کی مفتی محمود کی کابینہ میں صوبائی زراعت کے وزیر تھے۔ وہ ڈگر ایک دورے پر آئے۔ وہاں ضلعی اور ڈویژنل افسران کو وزیر کے ساتھ ایک اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا گیا۔ خان لالا نے ذاتی طور پر مجھے جانتے ہوئے، اجلاس کے دوران میں مجھے اپنے قریب بیٹھنے کو کہا۔ مَیں نے کہا کہ میرے ضلعی اور سرکل افسر کو یہ پسند نہیں آئے گا، کیوں کہ یہ پروٹوکول کے خلاف ہے۔ لیکن خان لالا مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اجلاس کے کمرے میں داخل ہوا۔ ہم دونوں مرکزی صوفے پر بیٹھ گئے۔ سپرنٹنڈنگ انجینئر اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا اور مجھ سے کہا کہ مَیں کمرے سے نکل جاؤں۔ مَیں اُٹھا لیکن عظیم، خان لالا نے مجھے پیچھے کھینچ لیا اور غصے میں اس سے کہا: ’’مسٹر جان، یہ اجلاس کے دوران میں میرے ساتھ بیٹھے گا۔‘‘
اس کے بعد سپرنٹنڈنگ انجینئر خاموش ہوگیا۔ جب خان لالا چلے گئے، میرے افسران نے مجھ پر دھاوا بول دیا کہ مَیں نے وزیر کے ساتھ بیٹھنے کی جرات کیسے کی؟ مَیں نے کہا کہ مجھے وزیر نے بیٹھنے کا کہا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے