(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
سوات کے ماضیِ قریب میں دل چسپی رکھنے والے اکثر لوگ یہ بات بہ خوبی سمجھتے ہیں کہ 1917ء سے 1969ء تک کے فرمان رواؤں کا اندازِ حکمرانی اور نظام حکومت کیسا تھا؟ مگر وہ فرمان روا بے رحم یا ظالم آقا ہرگز نہیں تھے۔ وہ نرم مزاج، مہربان، محبت کرنے والے اور خیال رکھنے والے باپ کی مانند تھے اور اپنے لوگوں کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ ان حکم رانوں، خصوصاً میاں گل جہانزیب (والی صاحب) نے اپنی حکومت کے آخری دن تک از حد محنت کی۔ ان کی ریاست کے ہر ادارے پر گہری نظر رہتی۔ انھوں نے ریاست کے محدود وسائل کو بہت احتیاط سے استعمال کیا اور ہر میدان میں شان دار ترقی کی۔ وہ خود ہی ’’چیف آف پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘‘ اور ’’چیف انجینئر‘‘ تھے۔ سکولوں، ہسپتالوں، کالجوں اور رہایشی مکانات، پلوں اور سڑکوں کے منصوبے خود تیار کرنے اور منظوری دینے والے تھے۔ انھوں نے عمارتوں اور سڑکوں کے ٹھیکے کم بولی دینے والوں کو دیے۔ انھوں نے مسابقتی بولی دہندگان کو عشر جمع کرنے اور محصول کے ٹھیکے دیے۔
اگر کوئی یہ دعوا کرتا ہے کہ کوئی والی صاحب پر اثر انداز ہوسکتا تھا، تو اس کا یہ تاثر غلط ہے۔ تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال ہمیشہ ان کی ترجیحات میں شامل رہی۔ انضمام کے وقت مٹہ اور ڈگر میں کالجوں کی دو بڑی عمارتیں آخری مراحل میں تھیں۔ ان میں ہر ایک پراجیکٹ میں دس رہایشی بنگلے، مرکزی عمارت، ہاسٹل اور 80000 گیلن کی گنجایش والے پانی کے ذخائر شامل تھے۔ وہ سکول کے اساتذہ کو اُس وقت کے صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے تربیتی اداروں میں بھیجتے تھے، جہاں انھیں JV، JAV اور SV کے سرٹیفکیٹ ملتے تھے۔ اسی طرح لیب ٹیکنیشنز کو ٹریننگ کے لیے LRH پشاور بھیجا گیا۔
ان کے ہاں سرخ فیتے کی کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور فیصلے فوری طور پر کیے جاتے تھے۔ مَیں یہاں ایک مثال پیش کروں گا۔
شکار کے موسم میں والی صاحب نے مڈل سکول نانسیر، بونیر کا اچانک دورہ کیا۔ انھوں نے عملے سے جو زیادہ تر غیر مقامی تھے، ان کے مسائل پوچھے۔ انھوں نے پانی کے کنکشن کی عدم موجودگی کی شکایت کی۔ اگلے دن ہزاروں فٹ جی آئی پائپ سکول پہنچا دیے گئے اور ایک ہفتے میں پائپ لائن بچھائی گئی۔
والی سوات اپنے ڈومین کے 4000 مربع میل کے چپے چپے سے واقف تھے۔ لہٰذا وہ اپنے لوگوں کی ضروریات اور مطالبات کو بہتر طور پر جانتے تھے۔ جب وہ ولی عہد تھے، تو انھوں نے ریاست کے تقریباً سب علاقوں کا تاریخی وسیع و طویل دورہ کیا تھا۔ یہ دورہ تین ماہ تک جاری رہا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

One Response
والی صاحب واقعی ایک عظیم حکمران تھے اس کے دور حکومت میں میرا داداجان شانگلہ پار کے مرزا تھے وہ اکثر ہمیں والی صاحب کے بارے میں بتایا کرتےتھے