والی سوات کی تعلیم سے محبت

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
میانگل جہانزیب کی تعلیم کے لیے بے پناہ اور بے مثال محبت تھی۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان کے سامنے تین نِکاتی ایجنڈا تھا، یعنی تعلیم، صحت اور مواصلات۔ یہی ان کی ترجیحات کی فہرست تھی۔
ایک بار انھوں نے ریاست کے مختلف گاوؤں میں چالیس پرائمری سکولوں کی تعمیر کی منظوری دی۔ جب یہ مکمل ہوئے اور چوتھی جماعت تک داخلہ شروع ہوا، تو انھوں نے ان نئی تعمیر شدہ سکولوں کو مڈل سٹینڈرڈ میں اَپ گریڈ کرنے کا حکم دیا اور فوراً ہی مسابقتی ٹینڈر طلب کیے گئے۔
مرغزار وادی کے ایک دور دراز گاؤں میں دو اساتذہ کو مقامی بچوں کو پڑھانے کے لیے بھیجا گیا۔ انھوں نے والدین کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ اپنے بچوں کو مسجد میں کھولے گئے سکول میں پڑھنے کے لیے بھیجیں۔ صرف دو بچے پڑھنے آئے۔ کچھ وقت بعد ایک بچہ سکول چھوڑ گیا اور صرف ایک طالب علم رہ گیا۔ ایک استاد نے سیدو جاکر والی سے درخواست کی کہ انھیں کسی اور جگہ بھیج دیا جائے۔ والی صاحب نے انھیں واپس جانے کا کہا اور کہا کہ تمھیں ایک طالب علم کو پڑھانے کے لیے وہاں رہنا چاہیے۔ انھوں نے استاد کو مزید کہا کہ ایک دن آئے گا، جب تم مزید اساتذہ کی درخواست کروگے، کیوں کہ طلبہ کی تعداد بڑھ جائے گی۔
کالام کے مڈل سکول میں ایک طالب علم آٹھویں جماعت میں تھا۔ جب وہ اس جماعت کا امتحان پاس کرگیا تو اس کے والد نے اسے بحرین یا ریاست کے دیگر حصوں میں پڑھنے کے لیے بھیجنے سے انکار کردیا۔ والی صاحب کو اس بات کی اطلاع ملی اور انھوں نے اس صرف ایک طالب علم کے لیے سکول کو ہائی سٹیٹس میں اَپ گریڈ کر دیا۔
تعلیم کی روشنی پھیلانے اور عملے اور طلبہ کو سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے ان کی محبت کی ایک اور مثال اس طرح بیان کی جا سکتی ہے:
ہائی سکول ڈگر ایک ایسے مقام پر تعمیر کیا گیا جسے ایلئی، کڑپہ اور ڈگر کے اردگرد کے گاوؤں سے رسائی حاصل تھی۔ اساتذہ کی اکثریت پراپر سوات سے تھی۔ لہٰذا غیر مقامی عملے کے لیے ایک رہایشی کالونی تعمیر کی گئی۔ ایک دن جب والی صاحب بونیر کے دورے پر تھے، جس میں نانسیر جو کہ ایک گیم ریزرو تھا، میں شکار کا بھی پروگرام تھا۔ وہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے مڈل سکول نانسیر چلے گئے۔ عملہ والی صاحب کی اس غیر متوقع آمد سے حیران ہوا۔ انھوں نے عملے سے پوچھا کہ کیا انھیں کوئی مسئلہ ہے؟ ہیڈ ماسٹر، بختیار خان نے بتایا کہ انھیں سکول میں پانی کی فراہمی کے مسئلے کا سامنا ہے۔ یہ علاقہ کئی سالوں سے پانی کی کمی کے لیے جانا جاتا تھا۔
والی صاحب نے سیدو شریف واپس جانے پر پی ڈبلیو ڈی کے سٹور کے سربراہ کو حکم دیا کہ وہ ایک اہل کار کو بھیج کر سکول میں ایک کھلے کنویں کے لیے جگہ منتخب کریں۔ جب ریاستی اہل کار وہاں پہنچا اور ہیڈ ماسٹر کی رائے لی، تو انھوں نے کہا کہ انھیں فوری طور پر پانی کی ضرورت ہے اور کنویں کھودنے میں وقت لگے گا۔ لہٰذا کنگر گلئی کے چشموں سے ایک پائپ لائن سکول تک پہنچائی جائے۔ اہل کار نے اپنے افسر کو یہ بات بتائی۔ اس نے والی صاحب کو رپورٹ کر دی۔ اگلے ہی دن، چار ہزار فٹ پائپ سکول بھیجا گیا اور مسئلہ ایک ہفتے کے اندر حل کر دیا گیا۔
اب اگر مَیں اُس عظیم انسان (والئی سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب) کی تعریف کروں، تو کچھ لوگ اس بات پر ناخوش ہو تے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے