حقیقت حیات، خودداری اور فلسفۂ عزت نفس

Blogger Ghufran Tajik

دنیا کا نظام ہمیشہ سے ایک خاص اُصول کے تحت چلتا آ رہا ہے۔ یہاں کم زوروں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ انسان کی پہچان اس کے حالات سے نہیں، بل کہ اُس کے حوصلے، رویے اور خودداری سے ہوتی ہے۔ اگر ہم زندگی میں کسی بھی مشکل سے دوچار ہیں…… چاہے وہ بیماری ہو، غربت ہو، ناکامی ہو یا خوف، تو دنیا کو اس کا احساس دلانے سے کوئی فائدہ نہیں…… بل کہ دنیا ایسے لوگوں کو نظر انداز کر دیتی ہے، جو اپنی کم زوریوں کو اپنا تعارف بنا لیتے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں صرف وہی لوگ کام یاب سمجھے جاتے ہیں، جو اپنی مشکلات کو ہمت، صبر اور ذہانت کے ساتھ چھپانے کا ہنر جانتے ہیں۔ جو لوگ اپنی بیماری کو اپنے چہرے پر طاری کرلیتے ہیں، وہ دوسروں کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں۔ جو اپنی غربت کو اپنے لباس، چہرے اور انداز میں نمایاں کر دیتے ہیں، وہ کبھی باعزت زندگی نہیں گزار پاتے۔ اسی طرح، جو لوگ اپنی ناکامیوں کو اپنے اعتماد پر حاوی کر لیتے ہیں، وہ خود کو معاشرے میں مزید کم زور کرلیتے ہیں۔
٭ خودداری اور عزتِ نفس کی طاقت:۔ انسان کی اصل طاقت اُس کا ذہن اور رویہ ہوتا ہے۔ وہی شخص عزت پاتا ہے، جو اپنی مشکلات کے باوجود وقار کے ساتھ جیتا ہے۔ خودداری اور عزتِ نفس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان حقیقت سے نظریں چرا لے، بل کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی تکالیف کو اپنی شخصیت پر حاوی نہ ہونے دے۔ اگر ہم خوف زدہ ہیں، تو ہمیں اپنا خوف اپنی آنکھوں اور آواز میں ظاہر نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ دنیا کم زور لوگوں کو مزید کم زور کر دیتی ہے۔
اسی طرح، جہالت بھی ایک کم زوری ہوسکتی ہے، لیکن اگر ہم اپنی جہالت کو چھپانے کے بہ جائے سیکھنے کی کوشش کریں، تو ہم عزت دار لوگوں میں شمار ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی کمیوں کو دوسروں پر ظاہر کرنے کے بہ جائے اپنی شخصیت کو نکھارنے میں لگ جائیں، تو معاشرہ ہمیں زیادہ عزت دے گا۔
٭ حقیقت پسندی اور عملی حکمتِ عملی:۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حقیقت پسند بنیں اور عملی حکمتِ عملی اپنائیں۔ کچھ اُصول جو ہمیں اپنی زندگی میں اپنانے چاہئیں، وہ درجِ ذیل ہیں:
٭ مثبت رویہ رکھیں:۔ حالات جیسے بھی ہوں، ہمیں اپنی سوچ کو مثبت رکھنا چاہیے۔ خود پر رحم کھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، بل کہ ہمیں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
٭ ظاہری شخصیت پر توجہ دیں:۔ اگر ہم غریب ہیں، تو بھی ہمیں صاف ستھرا اور باوقار نظر آنا چاہیے۔ اپنی غربت کو اپنی شخصیت کا حصہ نہ بننے دیں۔
٭ اعتماد کے ساتھ بات کریں:۔ اگر ہم کسی چیز کو نہیں جانتے، تو جھوٹ یا ڈرامے کی بہ جائے سیکھنے کی کوشش کریں، لیکن اپنی جہالت کو اپنے حلیے اور لہجے پر غالب نہ آنے دیں۔
٭ اپنی مشکلات کا رونا نہ روئیں:۔ دنیا کو ہمارے دکھوں سے کوئی سروکار نہیں، اس لیے ہمیں اپنے مسائل کا حل خود نکالنا ہوگا۔
٭ خوف کو ظاہر نہ کریں:۔ خوف کو اپنے ذہن میں محدود رکھیں، کیوں کہ جو لوگ اپنے خوف کو ظاہر کرتے ہیں، وہ دوسروں کے لیے کم زور بن جاتے ہیں۔
زندگی میں عزت، کام یابی اور مقام حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی مشکلات کو دوسروں پر ظاہر نہ کریں، بل کہ انھیں اپنی طاقت میں بدلنے کی کوشش کریں۔ دنیا صرف اُن لوگوں کو یاد رکھتی ہے، جو ہمت اور وقار کے ساتھ جیتے ہیں۔ جو لوگ اپنی تکالیف کا رونا روتے ہیں، اُنھیں لوگ جیتے جی دفن کر دیتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی کم زوریوں کو اپنے چہرے اور گفت گو پر نہ آنے دیں، بل کہ اپنے عمل اور رویے سے ایک مضبوط اور باوقار انسان بن کر دنیا کے سامنے آئیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے