سولہ دسمبر 1971ء کو ایک لمبی اور خوں ریز جنگ جس کو ایک ہزار میل کی دوری پر پاک افواج کے چند دستوں نے لڑا، عالمی جنگی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ یہ افسوسناک واقعہ ہے اور وہ اس طرح کہ کوتاہ نظر اور خود غرض و نالائق سیاست کاروں کی وجہ سے لاکھوں انسان جان سے گئے۔ کروڑوں روپوں کے نقصانات ہوئے اور پاکستان، پاکستان نہ رہا۔ 1971ء کی جنگ اور پھر سنہ 70ء کی دہائی میں بننے والی غیر دانشمندانہ پالیسیوں نے پاکستان کو نصف صدی پیچھے دھکیلا۔ بھارت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ جنگ جیت لی تھی، لیکن اس پرائی جنگ میں کودنے سے وہ نہ صرف اندرونی طورپر غیر مستحکم ہوگیا لیکن بدلہ اور انتقام کے تسلیم شدہ اقدام کے خوف کا نامعلوم مدت تک شکار ہوگیا۔ اس شرارت پر اُسے کیا ملا؟ بے شمار اخراجات اور مستقل خطرات! اگر بھارت والے روزِ اول سے مسلمانوں کے ساتھ نفرت اور دشمنی والے نہ ہوتے، پہلے تو تقسیم نہ ہوتی ورنہ دونوں ممالک زیادہ تیز رفتار ترقی کرتے۔
دنیا بھر کی جنگی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر جنگیں حکمرانوں یا حکمرانی کی تمنا رکھنے والوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ دوسری بڑی وجہ مذہبی محرکات ہے۔ افواج از خود نہیں لڑتیں، اُن کو لڑایا جاتا ہے۔ اس لیے پُرامن انسانی زندگی کے لیے دانشمند اور دور اندیش سیاسی اور مذہبی اشرافیہ کی موجودگی بہت ہی ضروری ہوتی ہے۔
پاکستان سے مشرقی بنگال کی جدائی کی سیاسی وجوہات بہت زیادہ ہیں۔ اُن پر اچھی خاصی مقدار میں مواد کتاب میں درج ہے، جس کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے (جس میں بھارتی مہاجر سب سے زیادہ تھے اور دوسرے نمبر پر اُس میں پنجابی تھے) مشرقی بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے درمیان سیاسی اور معاشی توازن قائم نہ کیا۔ خصوصاً بھارتی مہاجر حکمران اور حکام ایک آزاد ریاست کی حکمرانی کی قابلیت ہی نہیں رکھتے تھے۔ آج بھی ان لوگوں کا ایک لیڈر یہ کہتا ہے کہ ’’پاکستان کو ہمارے آبا و اجداد نے بنایا‘‘ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر بنگالی، بلوچ، پنجابی، پشتون اور سندھی اپنے علاقوں میں آزاد ریاستِ پاکستان کا مطالبہ نہ کرتے اور اس کے حصول کے لیے عملی جد و جہد نہ کرتے، تو تمہارے آبا و اجداد کہاں پاکستان بناتے؟ یا انہوں نے اپنے علاقوں میں کیوں پاکستان نہیں بنایا؟ یہ زہریلی سوچ کہ ’’پاکستان چوں کہ ہم نے بنایا ہے، اس لیے یہ ہماری جاگیر اور ملکیت ہے‘‘ بہت نقصان دہ ہے۔ اسی زہریلی سوچ نے آگے جاکر نہ صرف بنگال کی مایوسی کو ممکن بنایا بلکہ باقی ماندہ ملک میں آج تک خون کی ندیوں اور وسیع ترین لوٹ مار کی بنیادی وجہ بھی یہی ملکیت کا دعویٰ ہے کہ ملک کے اپنے باشندوں کے وجود اور حقوق سے انکار کیا جاتا ہے۔ کراچی، حیدر آباد میں رہنے والے مہاجرین اور مقامی اقوام کی سہولیات، ترقی و پسماندگی کو ہر شخص دیکھ اور محسوس کرسکتا ہے۔ وہاں کبھی کسی مہاجر سردار نے یہ دیکھا ہے کہ ان شہروں میں کتنے غیر مہاجر نوجوان اور بچے ہیں اور سکولوں کالجوں میں اُن کی تعداد اور نسبت کیا ہے؟ غیر مہاجروں کی بستیاں کیسی ہیں اور اُن میں سکولوں، کالجوں، ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں بلکہ عام میونسپل خدمات کی کیا صورتحال ہے؟ ہر ایک جانتا ہے کہ مقامی اقوام کے وجود سے انکار کیا جاتا ہے۔

بنگلہ دیش بننے کی بڑی وجوہات میں اُن مہاجر حکمرانوں اور بے فکرے پنجابیوں کا بڑا ہاتھ تھا جو 1947ء سے حکمران تھے۔ دوسری وجوہات میں مندرجہ ذیل بھی تھیں:
1:۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک ہزار میل کا خشکی والا فاصلہ تھا اور یہ سارا ایک ہزار میل کا راستہ بھارت میں تھا جو بدقسمتی سے دوست ملک نہیں تھا۔ یہ ایک ہزار میل کا فاصلہ ہوائی جہازوں میں طے کیا جاتا تھا۔ تجارت اور سپلائی وغیرہ کے لیے کئی ہزار میل سمندری راستہ تھا جو مہینوں میں طے ہوتا تھا۔ یہاں بھی سفری سہولیات کے لیے یا مشکلات کے لیے بھارتی بندرگاہیں تھیں۔ سری لنکا کو چھوڑ کر کسی بھی دوست ملک کی بندرگاہ درمیان میں نہ تھی۔
2:۔ تقسیم کے بعد حکومت کا صدر مقام کراچی یعنی مغربی پاکستان رکھا گیا اور سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر یہاں رکھے گئے جس سے بنگالیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہوتا تھا اور وہ مایوسی کا شکار ہوگئے۔
3:۔ چوں کہ مہاجر حکمران اپنے علاوہ کسی قوم کو خاطر میں نہ لاتی تھیں، اس لیے جب ہماری مقدس گائے لیاقت علی خان کے دور میں بنگالی کو دوسری سرکاری؍ قومی زبان کا درجہ دینے سے انکار کیا گیا، تو بنگال میں مایوسی اور بھی زیادہ ہوگئی۔
4:۔ ملازمتوں اور صنعتوں میں مہاجرین کی ترجیح نے بنگالیوں کو بھی ناراض کردیا۔
5:۔ سوائے اسلام کے مغربی اور مشرقی پاکستانیوں کے درمیان اور کوئی چیز مشترک نہ تھی۔ بنگالیوں کی زبان، ان کا لباس، رسم و رواج، رسم الخط سب اُن کے اپنے تھے۔ اسلام بھی صرف طریقہ ہائے رکوع و سجود تک ایک تھا۔ حکومت میں اسلام بھی نہیں تھا۔
6:۔ دورِ جدید میں بھی ایک ہزار میل میں منقسم ایک ملک رہنا ناممکن ہے۔ دولتِ برطانیہ کی وسعت بھی اسی وجہ سے ختم ہوئی تھی۔
7:۔ ایک ہزار میل کی دوری پر اور دشمنوں سے گھرے ہوئے ملک میں افواج کے صرف چند دستے تھے۔ 1971ء میں مزید دستے بھیجنے کے باوجود اُن کی تعداد چوبیس پچیس ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ شہادتوں کے بعد اُن کی تعداد تقریباً بیس ہزار تھی اور وہ بھی اس طرح کہ اُن کی سپلائی لائن موجود نہ تھی۔ اُن کی بندوقیں خالی تھیں۔ آپس کا اور مرکز سے رابطہ ختم تھا۔
8:۔ نوے ہزار جنگی قیدی کے الفاظ فوج اور پاکستان کو ذلیل کرنے کے لیے استعمال ہوئے۔ جنگی قیدیوں میں 70، 80 ہزار غیر فوجی مثلاً مغربی پاکستانی ملازمین، مزدور اور کاروباری لوگ تھے۔
10:۔ سولہ دسمبر 1971ء کے واقعے سے پاکستان کے حکمرانوں نے عوام اور فوج کے مورال کو گرانے کا کام مؤثر انداز سے لیا۔ نفرتیں دیدہ دانستہ پیدا کی گئیں۔ 1971ء کی شکست دراصل فوجی شکست نہ تھی بلکہ سیاسی لوگوں کی ناکامیوں کا نتیجہ تھی۔ آج بھی پوری قوم غیر موزوں سیاست کاروں کی سیاہ کاریوں کا شکار ہے جو اپنے اقتدار اور خزانوں کے لیے ہی معروف ہیں۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔