عید پر گورنمنٹ کی طرف سے نئے نوٹوں کا اجرا شاید پوری دنیا میں صرف مملکتِ پاکستان ہی میں ہوتا ہے۔ یہ اتنی بری بیماری ہے جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ رمضان شروع ہوتے ہی لوگ بنکس کے چکر لگاتے ہیں، اسٹاف سے نئے نوٹوں کی گڈیوں کے تقاضے کرتے ہیں، بنک کا اسٹاف پہلی رمضان سے جھوٹ بولنا شروع کرتا ہے اور آخری رمضان تک اتنا جھوٹ بولتا ہے کہ بہ قول ہمارے بینکر دوست کے ، خدا کے نزدیک منافقین میں شامل ہونے کے لیے اتنا جھوٹ کافی ہے۔
پہلی رمضان سے اسٹیٹ بنک کے باہر قطاریں لگتی ہیں، لوگ نئی کرنسی خرید کر بلیک مارکیٹ میں بیچتے ہیں۔ اُن کو معلوم ہے کہ گورنمنٹ نے لوگوں میں ایسا لالچ پیدا کیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر نئے نوٹ خریدیں گے۔ اگر بنک سے نہ ملے، تو بلیک مارکیٹ کا رُخ کریں گے۔
بلیک میں ایک گڈی اپنی مروجہ قیمت سے زیادہ میں بِکتی ہے۔ مثال کے طور 50 کے نوٹوں کی ایک گڈی کی قیمت 5 ہزار ہے۔ اندازہ لگائیے کہ اس وقت رمضان کے اختتام پر پانچ ہزار کی ایک گڈی، پانچ ہزار نو سو روپے کی بلیک میں بِک رہی ہے۔ یہ 9 سو روپے مکمل طور پر سود ہے۔ اس کا لینے والا اور دینے والا دونوں اُس جنگ میں شریک ہوتے ہیں، جو اللہ اور اُس کے رسول کے خلاف لڑی جاتی ہے۔
اس معاملے میں فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ جو نوٹ ایک ہی ملک کے ہوتے ہیں اور ایک ہی قسم کی مالیت رکھتے ہیں، اگرچہ پرانے اور نئے ہوں، اُن کا آپس میں تبادلہ مساوی طور پر ہاتھ در ہاتھ جائز ہے۔ کمی زیادتی کے ساتھ تبادلہ یا نئے نوٹوں کو پرانے نوٹوں کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ خریدنا یا فروخت کرنا ناجائز اور سود ہے۔ قرآن کریم سود کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ارشاد باریِ تعالیٰ ہے: یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن۔ یعنی ’’اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو اور جو سود باقی ہے اُسے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔ (278)
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُوْسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ۔ یعنی ’’لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور اگر تم نے توبہ کر لی تو تم اپنے اصل سرمائے کے حقدار ہو، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘ (سورہ البقرہ: 279)
مَیں نے بعض اسلامک بنکنگ کے برانچ منیجروں کو کسٹمروں کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے بلیک مارکیٹ سے نئے نوٹ خریدتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہر گڈی پر زائد رقم وہ اپنی جیب سے ادا کیا کرتے۔ اس کی وجہ کسٹمروں کا تھریٹ ہے کہ اگر نوٹوں کی گڈیاں نہیں پہنچائیں، تو برانچ سے ڈپازٹ نکال لیں گے۔ ایسے لوگ اپنے مسلمان بھائی کو سود کی دلدل میں پھینکتے ہیں۔ برانچ منیجر پہلے ہی ٹارگٹ کی وجہ سے پریشر جھیلتا ہے، یہ باتیں اُس کو ڈیپریشن، اینزائٹی مختلف ذہنی بیماریوں اور بلیک مارکیٹ کی طرف دھکیلتی ہیں۔
جو بات کسٹمر کو سمجھ نہیں آتی، وہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بنک ایک مخصوص کوٹہ ہر بنک کو جاری کرتا ہے۔ اُس کوٹے میں سے ہر برانچ کو تھوڑا تھوڑا حصہ ملتا ہے۔ جو حصہ ملتا ہے، وہ اتنا ہوتا ہے کہ ایک اسمال سائز کی برانچ کے کسٹمروں کے لیے بھی کافی نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بنک کا اسٹاف، کسٹمروں کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے بلیک مارکیٹ کا رُخ کرتا ہے۔
مَیں نے اپنے بینکنگ کیرئیر میں بعض ایسے کسٹمر بھی دیکھے ہیں، جو ہر سال دنگا فساد، لڑائی جھگڑا کرکے نوٹوں کی گڈیاں بنک سے لے جاتے تھے اور پھر عید کے فوراً بعد، زائد گڈیاں واپس بنک میں دینے آتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اُنھوں نے ضرورت سے زائد گڈیاں بنک سے لے لی تھیں، جن کی عید پر ضرورت پیش نہیں آئی۔
یہ وہ ہوس ہے جو انسان کو اُس کے شرف سے نیچے گرا دیتی ہے۔ مَیں نے اپنے کولیگز کو دیکھا کہ رمضان میں اکثر جب اُن کا موبائل بجتا تھا، تو سب کو دکھا کر کہتے تھے کہ جس کی کال آرہی ہے، یہ بندہ پورے سال کبھی سلام دعا تک نہیں کرتا، مگر دیکھو ، بے غیرتوں کی طرح، ہر سال رمضان میں نئے نوٹوں کی گڈیاں مانگنے کے لیے فون کرتا ہے۔
اس معاملے میں سب سے زیادہ برانچ بینکنگ کا اسٹاف پستا ہے۔ اُن کو کسٹمر، رشتے دار، بیک آفس کے لوگ، ایریا منیجر، زونل ہیڈ، ایریا چیف، ٹریننگ سینٹر والے، سینٹرل پروسیسنگ یونٹ والے…… غرض ہر ڈیپارٹمنٹ تڑیاں لگا کر نوٹوں کی گڈیاں مانگتے ہیں۔ مثلاً پورا سال تمھارا کام کیا ہے، تمھیں سپورٹ کیا ہے، اب نئے نوٹ پہنچا دو! ورنہ تمھارا اپریزل خراب کردیں گے، تمھاری شکایت کردیں گے، تمھارا کام روک دیں گے، باس کے کان بھر دیں گے، اگر تم نے نئے نوٹ ہم تک نہیں پہنچائے وغیرہ وغیرہ۔
نئے نوٹ کیا ہیں؟
ہاتھ میں آتے ہی نوٹ میلا ہوجاتا ہے۔ حلق سے اترتے ہی مرغی اور دال برابر ہے۔ کیا ان چیزوں کے لیے انسان بھکاری بنے گا، قطعِ رحمی کرے گا، رمضان میں گالیاں دے گاا ور نفرتیں پالے گا……؟
دعا گو ہوں کہ پروردگار مجھے اور میری اولاد کو ان جہالتوں سے دور رکھے اور ہماری قوم کو عقل و شعور دے، یہ کہاں بھٹکی پھرتی ہے……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
