ہماری وسیع و عریض کائنات آج بھی سائنس دانوں کے لیے ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ سائنس دان مسلسل تحقیقات کر رہے ہیں اور مختلف نظریات پیش کر رہے ہیں، تاکہ کسی طرح کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھایا جاسکے اور اس کی حقیقی ماہیت کو سمجھا جاسکے۔
سائنس دان کئی پیچیدہ سوالات کے جوابات تلاش کر رہے ہیں، جیسے:کیا کائنات کی کوئی حتمی حد ہے، اگر وقت اور خلا کا وجود نہ ہو، تو کیا ہوگا، بلیک ہول کے اندر کیا چھپا ہے، کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے کیا تھا، اگر کائنات کی کوئی سرحد ہے، تو اس کے پار کیا موجود ہے؟ یہ اور اس جیسے دیگر سوالات انسانی عقل کے لیے ایک بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
ان پیچیدہ سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے مختلف سائنس دانوں نے متعدد نظریات پیش کیے، جنھیں ریاضیاتی ماڈلوں کے ذریعے پرکھا گیا…… لیکن کوئی بھی ایسا نظریہ سامنے نہ آسکا، جسے کائنات کی واحد اور حتمی حقیقت کے طور پر پیش کیا جاسکے، اور کائنات کی حقیقت آشکار کرنے والی دیگر خامیوں کے حامل نظریات کو بنیاد فراہم کرسکے۔
اس حوالے سے 1993ء میں جیرارڈ ہوفٹ اور لیونارڈ سسکائنڈ نے ہولوگرافک اُصول پیش کیا، جس نے دنیا بھر کے سائنس دانوں کو حیران کر دیا۔ اس اُصول نے کائنات کی حقیقت کے حوالے سے ایک بالکل نیا تصور پیش کیا، جو پچھلے تمام روایتی نظریات سے کافی مختلف تھا۔ اس اصول نے کوانٹم فزکس کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی راہ ہم وار کی، جس کا ذکر ہم اپنے دوسرے مضمون میں تفصیل سے کریں گے۔ کیوں کہ ہولوگرافک اُصول کو سمجھنے سے پہلے ہمیں سب سے پہلے معلومات یعنی انفارمیشن کے تصور کو گہرائی سے سمجھنا ہوگا۔ کیوں کہ جب تک ہم انفارمیشن کے بنیادی تصور کو نہیں سمجھتے، تب تک ہم کائنات کے وجود اور اس کی حقیقت کو پوری طرح نہیں جان سکتے۔
اس تحریر کے آخر میں، مَیں صرف ہولوگرافک اُصول کا ایک مختصر تعارف پیش کروں گا۔ پھر اگلی تحریر میں تفصیل سے بیان کروں گا کہ یہ نظریہ کس طرح کائنات کے رازوں سے پردہ اُٹھاتا ہے اور کس طرح کوانٹم فزکس کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اب ہم انفارمیشن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سائنسی اصطلاح میں، ایٹمز کی مخصوص ترتیب ہی انفارمیشن کہلاتی ہے، یعنی اگر ایٹمز کو ایک خاص انداز میں ترتیب دیا جائے، تو وہ ایک منفرد معلوماتی ڈھانچا تشکیل دیتے ہیں۔ حقیقت میں، اس دنیا میں موجود ہر چیز، چاہے وہ کسی بھی رنگ، شکل یا ساخت کی حامل ہو، ایٹمز کی مخصوص ترتیب کی بہ دولت ہی وجود رکھتی ہے۔ چاہے وہ مادہ ہو یا خلا، ہر چیز بنیادی طور پر ایک مخصوص معلوماتی ترتیب پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ انفارمیشن کسی بھی شکل میں ہوسکتی ہے، چاہے وہ انسان کا وجود ہو، سیارے اور ستارے ہوں، یا پھر خلا، ہر چیز درحقیقت انفارمیشن کی ہی ایک خاص شکل ہے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ انفارمیشن کبھی ختم نہیں ہوتی، بل کہ ایک سے دوسری شکل میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر میرے موبائل میں ایک تصویر موجود ہے اور مَیں اسے ڈیلیٹ کر دوں، تو وہ انفارمیشن مکمل طور پر ختم نہیں ہوگی، بل کہ نہ ختم ہونے والے انرجی میں تبدیل ہوجائے گی۔ اگر کسی طریقے سے اس توانائی کو دوبارہ ترتیب دیا جاسکے، تو ہم وہی تصویر دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس اصول کو جدید کوانٹم فزکس میں ’’لا آف کانزرویشن آف انفارمیشن‘‘ یعنی ’’قانون بقائے معلومات‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی کوانٹم فزکس کے بنیادی اصول کے مطابق، اگر ہم کسی سسٹم کی ابتدائی حالت کے بارے میں جانتے ہوں، تو ہم مستقبل میں ہونے والی اس کی حالت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔
یعنی، اگر ہمارے پاس کسی بھی سسٹم کی مکمل انفارمیشن ہو، تو وہ انفارمیشن کبھی ضائع نہیں ہوگی بلکہ کسی اور شکل میں ہمیشہ کے لیے باقی رہے گی۔ مثال کے طور پر اگر ہم پانی کو بخارات میں تبدیل کریں، تو پانی اپنی مائع شکل کھو دیتا ہے، لیکن اس کی تمام معلومات (جیسے ماس، انرجی) کسی نہ کسی طرح موجود رہتی ہیں۔
لوپ کوانٹم گریویٹی اس کی مزید وضاحت کرتا ہے۔ اس کے مطابق، سپیس اور ٹائم کوانٹم لیول پر چھوٹے ذرات میں تقسیم اور مشتمل ہوتی ہے، اور کوئی بھی انفارمیشن مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی، بل کہ کسی اور شکل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
لیکن ان سب کے برعکس اسٹفن ہاکنگ نے پہلے ایک متضاد نظریہ پیش کیا تھا۔ ان کے مطابق معلومات بلیک ہول میں ختم ہوجاتی ہیں، اس کا مطلب جب کوئی چیز بلیک ہول میں گرتی ہے، تو اُس کی معلومات بھی ضائع ہوجاتی ہے، اور جب بلیک ہول ہاکنگ شعاعوں کے ذریعے ختم ہو جاتا ہے، تو وہ معلومات بھی مکمل طور پر مٹ جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں معلوماتی تناقض کا مسئلہ پیدا ہوا۔
ہاکنگ کے اس دعوے کہ معلومات ہمیشہ کے لیے مٹ جاتی ہیں، نے فزکس کے دو بڑے نظریات یعنی ’’جنرل ریلٹویٹی‘‘ اور ’’کوانٹم میکینکس‘‘ کے درمیان شدید تضاد پیدا کردیا۔ کیوں کہ ایک طرف جنرل ریلٹویٹی، بلیک ہول کو ایک مکمل جاذب مانتی ہے، جہاں کچھ بھی گرنے کے بعد واپس نہیں آسکتا۔ جب کہ دوسری طرف کوانٹم میکینکس کہتی ہے کہ معلومات کبھی ختم نہیں ہو سکتیں، بلکہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہتی ہیں۔
بعد میں اسٹیفن ہاکنگ نے 2004ء میں خود یہ تسلیم کیا کہ معلومات مکمل طور پر ختم نہیں ہوتیں، بل کہ کسی نہ کسی پیچیدہ شکل میں ’’ہاکنگ ریڈی ایشن‘‘ کے ذریعے واپس آتی ہیں۔
ہاکننگ کے بعد 1972ء میں ’’جیکب بیکنسٹین‘‘ نے یہ ریاضیاتی طور پر یہ نتیجہ نکالا کہ بلیک ہول کی معلومات کا دار و مدار اس کے رقبے پر ہوتا ہے، نہ کہ اس کے حجم پر، یعنی معلومات بلیک ہول کے اندر غائب نہیں ہوتیں، بل کہ اس کی سرحد پر موجود رہتی ہیں، اور ہاکنگ ریڈی ایشن کے ذریعے کسی نہ کسی طرح دوبارہ ظاہر ہوتی ہیں۔
اب انفارمیشن پیرا ڈاکس کے مسئلے کے حل کے طور پر ہولوگرافک اُصول اور بلیک ہول کی تکمیلیت کے نظریات وجود میں آئے۔ ان نظریات کے مطابق بلیک ہول کی معلومات اس کے ’’ایونٹ ہورائزن‘‘ یعنی ’’افقِ واقعہ‘‘ کی سطح پر محفوظ رہتی ہے۔
اگر کوئی چیز بلیک ہول میں گرتی ہے، تو بلیک ہول کا ایونٹ ہورائزن بڑھ جاتا ہے۔ بیکنسٹین اور ہاکنگ نے بھی یہ ثابت کردیا کہ بلیک ہول کی انتروپی اس کے رقبے کے متناسب ہوتی ہے، نہ کہ حجم کے، یعنی بلیک ہول میں موجود تمام معلومات اس کی سطح پر موجود ہوتی ہیں، جیسے کہ ایک ہولوگرام۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کسی 3D تصویر ہولوگرام میں تمام معلومات 2D سطح پر محفوظ ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب کائنات بھی شاید ایک ہولوگرام ہو، جہاں ہماری تمام معلومات کسی سطح پر محفوظ ہوں۔
اس حقیقت کی وضاحت ہم ’’ہولوگرافک اُصول‘‘ کے ذریعے آیندہ تحریر میں کریں گے، ان شاء اللہ!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
