انکل سام اور دولے شاہ کے چوہے

Blogger Syed Fayaz Hussain Gailani

آج کل چوں کہ کرکٹ کا جنون حاوی ہے اور پاکستانی عوام کی اکثریت قومی ٹیم کی اس ٹورنامنٹ میں عبرت ناک شکست کو میرٹ پر نہیں لیتی، بل کہ ان کا خیال ہے کہ پاکستان کی شکست مسچ فکسنگ کا نتیجہ تھا۔ سو میچ فکسنگ کی اصطلاح آج کل زبان زدِ عام ہے۔ حالاں کہ ہماری داخلی سیاست میں بھی بہت سے میچ فکس ہوتے ہیں، لیکن عوام اُس کو سمجھ نہیں پاتے۔ ہم پاکستان کی تاریخ میں ایسے درجنوں واقعات بیان کرسکتے ہیں کہ جو اندرونِ خانہ طے شدہ ہوتے تھے، لیکن عوام میں تاثر کچھ اور ملتا تھا۔ سو آج ہم اپنی قوم کی توجہ ایک بین الاقوامی میچ فکسنگ کی طرف دلاتے ہیں کہ جس کا چرچہ بہت ہے میڈیا میں، اور وہ فکس میچ تھا یوکرائن کے صدر اور امریکی صدر کے درمیان ملاقات میں تلخی کا کہ جو دنیا بھر کے شائقین نے ٹی وی پر دیکھی۔
اب بہ ظاہر تاثر یہ ہے کہ یوکرین کے صدر کی اوول آفس میں بہت بے عزتی کی گئی اور اس کو بہت توہین آمیز طریقے سے وائٹ ہاؤس اور واشنگٹن سے واپس کیا گیا۔ اس کے بعد صدر یوکرائن نے گھر جا کر اس پر کوئی صلاح مشورہ کرنے کے بہ جائے یورپ کا دورہ کرنا مناسب سمجھا اور یورپ کے اکثر بڑے ملکوں مثلاً: برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ سے یوکرائن کی حمایت میں کچھ ہلکے بیانات آئے۔وہاں صدر بزرسکی نے امریکہ سے معافی کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔
اس کے بعد صدر یوکرائن نے واپس جاکر ایک خط عزت مآب ڈونلڈ ٹریمپ کو لکھا جس میں معدنیات کے حوالے سے امریکہ کو دوبارہ پیش کش کی اور روس یوکرائن جنگ بارے بھی کسی حد تک امریکی موقف کا ساتھ دینے کا عندیہ دے دیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ بتانے سے پہلے ہم اپنے معصوم عوام کہ جن کو جنونیت اور جذباتیت کے علاوہ کچھ نہیں آتا، یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ سیاسیات، معاشرتی علوم اور سفارتِ امور کا ادنا سا طالب علم بھی یہ بات بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب فکس تھا۔ اگر اس میں سارے فریق نہ بھی ہوں، تب بھی بڑے فریق، مثلاً: امریکہ اور یورپ کے درمیان بات طے شدہ تھی۔ جو لوگ سفارتی اُمور میں دل چسپی رکھتے ہیں، وہ تاریخی طور پر جانتے ہیں۔ ہم تو اس پر بارہا لکھ چکے ہیں کہ یہ ’’انکل سام‘‘ کا ایک خاص طریقۂ واردات ہے۔ وہ اپنے مفادات کے لیے ہر قسم کی گیم ڈال لیتا ہے۔ اِس مسئلے پر بھی اُس نے یوں ہی کیا۔ کیوں کہ اُس کو معلوم ہوچکا تھا کہ چین اب ابھرتی ہوئی اقتصادی و فوجی طاقت ہے۔ کسی بھی وقت روس کے ساتھ مل کر ’’انکل سام‘‘ کی چودہراہٹ ختم کرسکتا ہے۔ روس بھی سنہ 1992ء کے بعد شوقِ حکم رانی سے دست بردار ہوچکا تھا۔ اب گذشتہ چند سالوں میں وہ ایک بار پھر اقتصادی خوش حالی کی جانب گام زن تھا۔ سو امریکہ نے بہت ہوش یاری سے اپنے پتے ترتیب دیے۔
یوکرین روس جنگ بارے ہم روزنامہ آزادی کے ادارتی صفحہ پر کئی بار لکھ چکے ہیں کہ یہ امریکی سازش تھی۔
قارئین! دیکھ لینا، مستقبلِ قریب میں یوکرائن معدنیات کا معاہدہ بھی امریکہ سے کرے گا۔ یوکرائن نیٹو کا رکن بھی بنے گا اور نیٹو کسی قسم کی ایٹمی تنصیبات یوکرائن میں انسٹال نہیں کرے گا۔
دوسری طرف امریکہ اور روس کے درمیان ایک نیا معاہدہ ہونے جا رہا ہے، جس کے بعد ممکنہ طور پر امریکہ، یورپ کے مقابل روس کے نسبتاً زیادہ قریب ہوجائے گا۔ یقینا روس اور امریکہ مل کر یورپ کی سمت کا تعین کریں گے۔
امریکہ اور روس کے درمیان یہ یک جہتی بے شک بہ راہِ راست شرق الوسط پر اثر انداز ہوگی۔ شرق الوسط میں اسرائیل کی چودھراہٹ مکمل ہوجائے گی اور فلسطین کا مسئلہ شاید ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ یہی نکلے گا کل نتیجہ۔ دنیا رواں دواں رہے گی، مگر پاکستان کے اندر ایک مخصوص مگر ذہنی طور پر کم زور دماغ خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں کے سہارے پھر سے کمر بستہ ہوجائے گا اور خیالوں میں مغرب کو ملیا میٹ کرکے پھر سے اپنے ملک کی تباہی کا وارث بنے گا۔
ان سطور میں ہم نے جو پیشین گوئی کی ہے، وہ کسی معلومات کی بنا پر نہیں، بل کہ امریکہ کے ماضی کے رویے اور کردار کو پرکھ کر بس ایک تجزیہ اخذ کیا ہے۔ اس کی توجیح ہمارے نزدیک یہ ہے کہ پہلے تو امریکہ نے روس کی معیشت کو خراب کرنے کے لیے یوکرائن اور نیٹو کا ڈراما کھیلا۔ پھر یوکرین کی شکل میں روس کو چارا ڈالا۔
ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ بین الاقوامی سفارت، سیاست اور خاص کر تجارت میں اخلاقیات کو 100 فی صد مدِنظر نہیں رکھا جاتا۔ خصوصاً انکل سام کے نزدیک تو اخلاقی اقدار ویسے بھی بے معنی ہیں۔ وہاں صرف اور صرف مفادات کو دیکھا جاتا ہے۔ اب یوکرائن کے صدر کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرکے اُس نے روس کو یہ پیغام دیا ہے کہ امریکہ کچھ ذاتی خواہشات کے بدلے یوکرائن پر روس کی تجاویز کو قبول کرلے گا۔ یوکرائن کو نیٹو میں روس کی شرائط پر شامل کرکے ممکنہ طور پر یورپی لیگ میں بھی جگہ دلوا دے گا۔ یوکرائن کو یورپ سے بھاری امداد بھی مل جائے گی۔
اب تمام صورتِ حال کا نتیجہ ملاحظہ فرمائیں۔ اس تمام صورتِ حال کو مینج واشنگٹن سے کیا جا رہا ہے۔ مطلب، روس امریکہ کا مشکور اور یورپ امریکہ کا مشکور۔ یوکرائن بے چارے کی ویسے بھی کیا حیثیت ہے؟ وہ تو غلام ہی ہے۔ سو سادہ سی بات ہے کہ امریکی، روس اور یورپ سے مکمل فائدہ حاصل کریں گے اور دنیا کو سمجھائیں گے کہ امن ہی بہتر ہے، جب کہ اسلامی ممالک کے انتہا پسند اور ذہنی طور پر بیمار اشخاص اگلے کافی سالوں تک ’’امریکہ کو مار پڑی‘‘ کا جھنجھنا لے کر سوشل میڈیا پر فتح کے شادیانے بجاتے رہیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ کو اس سے فائدہ کیا حاصل ہونا تھا؟ آپ یقین کریں امریکہ کو تجارتی اور سفارتی فائدہ تو تھا ہی، اصل میں اس تمام ڈرامے کی حقیقت فقط اتنی سی ہے کہ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ…… اور یہ تمام حکمتِ عملی یقینی طور پر امریکہ میں موجود صہیونی لابی کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ روس کا یوکرائن پر حملہ اور حماس کا اسرائیل پر حملہ، یہ دونوں حملے ایک ہی اجلاس اور ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر طے ہوئے ہوں گے۔ صیہونی طاقتوں کا یہ منصوبہ تھا کہ شرق الوسط میں کسی عمل سے قبل روس کو انگیج کر دیا جائے، تاکہ اسرائیلی اقدام کے جواب میں جب امتِ مسلمہ اور خاص کر عربوں میں اگر کوئی ری ایکشن ہوتا ہے، تو روس اس طرف متوجہ ہونے کے قابل ہی نہ ہو۔ اُدھر یوکرائن کو پرانا اسلحہ دیتے رہو اور روس کے اربوں ڈالر خرچ کرواتے رہو۔ دوسری طرف فلسطین اور فلسطین کی حامی قوتوں کا کچومر نکالتے رہو۔ اب جب ان طاقتوں نے حماس تو کیا، فلسطین کی سیاسی قیادت حزب ﷲ مجاہدین تک کو تقریباً ختم کر دیا ہے، ایران اور یمن کے حوثیوں کی گچی تک پہنچ گیا ہے، بل کہ ان کی سانس روک چکا ہے، تو وہ پھر امریکہ کے بہ جائے ’’انکل سام‘‘ بن کر سامنے آگیا ہے۔ دنیا کا ہم درد اور بڑا بن کر…… کہ آؤ بچوں لڑائی لڑائی معاف کریں اور اپنا اپنا دل صاف کریں۔ سو تمام فریقوں کے لیے موزوں جواز کہ جس کو انگریزی میں ’’فیس سیونگ‘‘ کہتے ہیں، دیا جائے۔ شرق الوسط میں کھربوں ڈالر لے کر سعودیہ کو عارضی چوہدری بنایا اور منوایا جائے۔ تاکہ مسلم امہ یہ سمجھے کہ شرق الوسط کے فیصلے تو خادم حرمین الشریفین کر رہے ہیں۔ روس کا مطالبہ مان لیا جائے کہ یوکرائن میں ایٹمی تنصیبات نہ کی جائیں گی۔ یوکرائین کو نیٹو یا یورپی برادری کا رسمی رکن بنا دیا جائے اور یورپ کے ممالک سے کچھ معاشی امداد کروادی جائے، تاکہ اس کو دوبارہ بہتر تعمیر کیا جائے۔ نیز اقوامِ عالم کو یہ تاثر دیا جائے کہ امریکہ ہمیشہ انسانیت دوست کا کردار ادا کرتا ہے اور دنیا سے جنگ و جدل کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس پر تو ہم بے شک داد دیتے ہیں، چاہے وہ امریکہ ہو یا وہاں موجود صیہونی لابی کی ذہانت ہو۔ مسلمہ انسانی اقدار کے تحت ان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی آپ کا مخالف ہے، تو وہ یہ حق رکھتا ہے کہ وہ آپ کے خلاف جو مناسب سمجھے کرے۔ ویسے بھی دشمن سے شکوہ و شکایت کیسی! ہمیں تو شکوہ ہے اُن چالاک عناصر سے کہ جنھوں نے جذباتیت کو بہ طور ہتھیاراستعمال کیا اور ملک میں کم سن نوجوانوں کے دماغ کو ہپناٹائز کرکے ان کو شاہ دولے کا چوہا بنا دیا، جو نہ سوچ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ یہی دماغ مغرب یا کسی بھی استحصال پسند ملک کے لیے اثاثہ بن جاتے ہیں۔ بہ وقتِ ضروت یہ استحصالی عناصر اُن کو اپنے فائدے کے لیے بہت خوب صورتی اور جادو گری سے استعمال کرتے ہیں۔
یعنی دیکھیں ناں کہ ایک ہجوم ہے جو بہ ظاہر مغرب اور امریکہ کا دشمن نظر آتا ہے۔ اُن کے خلاف نعرہ لگاتا ہے، لیکن اُن کو خود یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ تو بس چارا ہیں اور ان کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ ان کے جو ہینڈلرز ہوتے ہیں، وہ تو مغرب کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ مغرب، خاص کر انکل سام ایک ماحول بنانے کے لیے انھیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے استعمال کرتا ہے۔کیوں کہ اس کو پتا ہوتا ہے کہ جو اثاثہ جات ہم نے تشکیل دیے ہیں، اُن کی فالونگ اور مقتدین کی تعداد معقول بھی ہے اور جاہل ترین بھی۔ بہ ہرحال ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ ہماری حکومت اس کو سنجیدگی سے لے اور ایسی پالیسی تشکیل دے کہ ہماری دفاعی اور خاص کر خارجہ پالیسی کو ممکنہ طور پر تمام اداروں اور سول سوسائٹی کی مشاورت سے تشکیل دیا جائے گا۔ جب ایک پالیسی طے ہوجائے گی، تو پھر اس پر کسی کو نجی طور پر کوئی بیانیہ بنانے کی اجازت ہر گز نہ ہوگی، بل کہ ہم تو یہ تجویز کرتے ہیں کہ ہماری سول سوسائٹی، میڈیا اور خاص کر حکومتیں سب سے پہلے ہماری نوجوان نسل کو جذباتیت سے ہٹا کر اُن کو مغرب، اسرائیل امریکہ اور خاص کر امریکہ میں موجود صیہونی لابی کا تعارف کروائے۔ ان کے طریقۂ کار کو سمجھائے کہ وہ کس طرح ایک پالیسی تشکیل دیتے ہیں؟ اول وہ ایک واقعہ بناتے ہیں۔ پھر اس واقعے کے نتیجے میں جو فریق مظلوم ہوتا ہے، اُس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر دنیا کو ساتھ ملا لیتے ہیں اور پھر پیسا کسی اور سے لگواکر اپنے بہت سارے مفادات حاصل کرلیتے ہیں۔ اپنے دشمن کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں۔ اس کا ناقابلِ تلافی نقصان کردیتے ہیں اور پھر مقتول کو یہ بھی سمجھا دیتے ہیں کہ وہ فاتح ہے۔ انکل سام شکست کھا گیا۔
قارئین! آپ ماضیِ قریب کی تاریخ کا جائزہ لے لیں۔ ویت نام، کمبوڈیا، افغانستان، یوگو سلاویہ، سربیا، بلقان، شرق الوسط، ایران عراق جنگ سے عراق کویت جنگ تک ہر جگہ آخری کام یابی انکل سام نے سمیٹی۔ دنیا بھر سے پیسا بٹور لیا۔ اپنی معیشت کو مضبوط کرلیا۔ فوجی کمان بھی اپنے پاس رکھا، سفارتی اجارہ داری بھی رکھی اور سیاسی چودہراہٹ بھی۔ ان تمام کام یابیوں کے بعد انکل سام کو کیا فرق پڑتا ہے کہ ایک ذہنی مریضوں کا جتھا یہ منترہ گا کر خوش ہو کہ ’’ہم جیت گئے!‘‘ کیوں کہ انکل کو یہ معلوم ہے کہ اس کا اصل اثاثہ تو یہی پاگل دماغ ہے۔ جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے کلی طور پر محروم ہے۔
اور یہ انکل سام کی جیت ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے