1960ء کی دہائی میں یورپ اور امریکہ کے خاندانوں کی روایتی اقدار اور نو عمر نوجوانوں کی ثقافتی اقدار کے درمیان فاصلہ بڑھ گیا تھا۔ اس ’’جنریشنل گیپ‘‘ کی کئی وجوہات تھیں، جن میں جنگِ عظیم دوم کے بعد کا کنزیومر کلچر، اخلاقی اقدار میں تبدیلی، میڈیا اور ٹیکنالوجی نمایاں تھیں۔ ’’برتھ کنٹرول پلز‘‘ (Contraceptives) کی دست یابی کی وجہ سے جنسی خواہشات کی طرف رویہ بدلنے لگا۔ نوجوانوں میں منشیات عام ہوگئی، جو اُس دور کی سامراجی فکر کے خلاف بغاوت کی علامت بن گئی۔
60ء کی دہائی میں ’’راک موسیقی‘‘ (Rock Music) کو بھی شہرت ملی۔ ان چیزوں کی وجہ سے ایک نیا گروہ نمودار ہوا، جن کو ’’ہپیز‘‘ (Hippies) کہا جاتا تھا۔ امریکہ کی "Beatnik Movement” سے "Hippie Movement” نکلی تھی۔ کنزیومر کلچر اور مادہ پرستی کے خلاف "Beatniks” اپنی مزاحمت آرٹ، پینٹنگ، شاعری اور موسیقی کی مدد سے کرتے تھے۔
’’ہپیز‘‘ کا کوئی سرپرست تھا، نہ نظریہ۔ نہ وہ مذہب کے لیے لڑتے تھے اور نہ اخلاقیات پر بحث ہی کرتے تھے۔ وہ فلسفہ نہیں پڑھتے تھے، لیکن اُن میں یونانی فلسفی ’’دیوجانس کلبی‘‘ کی روح تھی۔ اُن کے نزدیک بائیں بازو کی اجتماعیت سے زیادہ روح اہم تھی۔ اُن کے ہاں ’’داس کیپیٹل‘‘ پڑھنے سے زیادہ لطف فطرت سے ہم آہنگی اور انسان دوستی میں تھی۔
قارئین! ہِپی اصطلاح مَیں نے پہلی دفعہ اپنے والد سے سنی تھی۔ ہم نے نتھیاگلی میں ایک بندہ دیکھا، جو اپنے لباس میں بہت ہی منفرد تھا۔ میرے والد نے کہا یہ تو بالکل ہِپی دِکھتا ہے۔ مَیں سمجھا اُن کا مطلب ہے کہ وہ بندہ خوش (Happy) دِکھ رہا ہے، لیکن پوچھنے پر پتا چلا کہ دراصل یہ انسانوں کا ایسا قبیلہ تھا، جن کا کوئی مستقل ٹھکانا نہیں تھا۔
ہپیزتحریک کا آغاز امریکہ کے شہر ’’سان فرانسیسکو‘‘ سے ہوا تھا، جو ان کا ایک روحانی گھر بھی سمجھا جاتا تھا۔ 1969ء میں ’’ووڈسٹاک‘‘ (Woodstock) کے مقام پر چہار روزہ میلہ منعقد ہوا۔ یہ ایک فری میوزک فیسٹیول تھا، جس میں 5 لاکھ بندوں نے 4 دن اپنے گھر سے باہر گزارے تھے۔ یہ ’’راک میوزک‘‘ (Rock Music) کا میلہ تھا، جس میں لوگوں نے پوری دنیا میں امن کی خواہش کا اظہار کیا۔
ہپیز "Haight Ashbury” میں سمر آف لو کے لیے بھی آئے تھے، جہاں سے اُنھوں نے ویتنام کے جنگ کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا۔
’’وِل ڈیورنٹ‘‘ (Will Durant) نے اپنی کتاب "Lessons of History” میں لکھا ہے کہ دو عالمی جنگوں نے عیسائیت کو زخمی کیا ہے۔ تیسری عالمی جنگ اس کے وجود کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ ہپیز مغربی دنیا سے تھے تو سہی، لیکن جنگ کے معاملے میں اپنی ہی حکومتوں کے خلاف مزاحمت کرتے تھے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ مرنے والا عیسائی ہے کہ نہیں، بل کہ ان کہ ہاں زیادہ اہم انسان تھا۔ ویتنام کی جنگ کے خلاف جہاں ایک طرف ترقی پسند ادیب اپنی قلم کا استعمال کرتے تھے، وہاں ہپیز ننگے پیر سامراج کو للکار رہے تھے۔
ہپیز کسی بھی قسم کی تقلید کے خلاف تھے۔ 1960ء کی دہائی سیاسی اعتبار سے کافی جان دار ہے۔ جہاں ایک طرف دنیا نظریاتی بنیادوں پہ تقسیم تھی۔ افریقہ اور مشرقی ایشیا میں آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں، وہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے، جو زندگی کو بغیر کسی نظریے کے دیکھ رہے تھے۔ ناانصافی کے خلاف لڑنے کے لیے اُن کو ’’کامریڈ‘‘ بننے کی ضرورت نہیں تھی۔ ننگے پیر اور بالوں میں پھول لگائے جہاں وہ ایک طرف مادہ پرستی سے نجات حاصل کر رہے تھے، وہاں دنیا کو پیغام بھی دے رہے تھے کہ خوشی اور سکون ظاہری اشیا میں نہیں، بل کہ فطرت سے ہم آہنگی میں ہے۔
ہپیز کا حلیہ ہمیشہ توجہ کا مرکز رہا۔ بڑے بال، پرانی جینز، راؤنڈ سن گلاسز، نیکلس اور ہیڈ بینڈ ان کی پہچان بن گئے تھے۔ یہ منفرد حلیہ اگر ایک طرف اُن کو باقی لوگوں سے الگ کرتا تھا، تو دوسری طرف یہی حلیہ اُن کا جنگی جنون میں مبتلا سامراجی ریاستوں پر عدمِ اطمینان کا اظہار تھا۔ اُن کا مشہور جملہ تھا، ’’محبت کرو جنگ نہیں!‘‘
مشہور سنگرز "Bob Dylon” اور "Joan Baez” ہپیز تحریک سے وابستہ تھے ۔ جمائکن سنگر "Bob Marley” نے کہا تھا، ’’کاش! ہم سب ہِپی ہوتے اور یوگا کرتے، کاٹیج میں رہتے اور ہر ایک کو قبول کرتے۔‘‘
ہپیز منشیات کا استعمال کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اکثر پولیس اُن کو ٹارگٹ کرتی تھی۔ کیلیفورنیا کے گورنر (ریگن) جو بعد میں پریذیڈنٹ بنے، نے ہپیز کو امریکی اقدار سے انکار پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ کچھ لوگ ہپیز کے کام سے انکار پر اُن سے نالاں تھے۔ اُن کا مذاق بھی اُڑایا جاتا تھا، جیسے اس وقت کا مشہور جملہ تھا: ’’سر پر پھول، زبان پہ تیزاب۔‘‘
ہپیز، امریکہ کے علاوہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ، میکسیکو اور چلی سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کا زمینی سفر یورپ سے مغربی ایشیا اور پھر افغانستان کے راستے پاکستان، انڈیا، نیپال اور سری لنکا تک جاتا تھا۔ ہر ایک سٹاپ پر ہپیز کے لیے ہوٹل اور کاٹیج ہوتے تھے۔ اُن کے اس زمینی سفر کو "Hippie Trail” کہا جاتا تھا۔
1970ء کی دہائی میں ایرانی انقلاب اور افغانستان میں روسی مداخلت ہپیز کے مذکورہ زمینی سفر میں رکاوٹ بنے۔ اس سے پہلے 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں شام، عراق اور لبنان نے اُن کو ویزے جاری نہیں کیے تھے۔ کشمیر کے بدلتے حالات بھی اُن کے لیے سازگار نہیں رہے۔
ہپیز جدید دنیا کو بے روح مشین سمجھتے تھے۔ اُن کے ہاں جدت نے محبت کی جگہ انا، تخلیق کی جگہ تقلید اور خوشی کی جگہ شرم کو جنم دیا۔ وہ منشیات کا استعمال کرتے تھے، لیکن بے ضرر تھے۔ عرب اسرائیل جنگ ہو، ایران کا انقلاب ہو یا روس کی افغانستان میں مداخلت…… ان جنگوں اور تنازعوں کا نتیجہ کچھ بھی ہو، اس سے عام آدمی کی حالات پہ فرق نہیں پڑا…… لیکن ان تنازعات نے سامراجی قوتوں کا کام کیا۔ ہپیز کا راستہ بند ہونے سے منشیات کا استعمال رُکا نہیں اور بڑھ گیا۔
شاید مصطفی زیدی نے کسی ہِپی کو دیکھ کے ہی یہ اشعار کہے ہوں گے۔
کس پہ لبیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم
جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم
رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
گھر کے چولھے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم
زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
