(نوٹ:۔ زیر نظر سطور محمد لائق کی ایک انگریزی تحریر کا ترجمہ ہے، راقم)
(مرحوم) محمد افضل خان لالا، خیبر پختونخوا کے ایک معروف پشتون قوم پرست رہ نما تھے۔ وہ دسمبر 1926ء میں بالائی سوات کے گاؤں برہ درشخیلہ میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد حبیب خان جو کہ (دارمئی خان) کے نام سے مشہور ہیں، ریاست سوات کے ایک ممتاز اور نامی گرامی خان تھے۔ اُن کا تعلق یوسف زئی کی شاخ ’’محمد خیل‘‘ سے تھا۔
افضل خان لالا ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئے، جب سوات بادشاہ صاحب کے دور میں ایک نوابی ریاست تھا۔ بادشاہ صاحب کے ساتھ خراب اور کشیدہ تعلقات کی وجہ سے افضل خان کے خاندان کو دباو میں آکر سوات چھوڑنا پڑا۔ وہ ریاستِ دیر چلے گئے اور اس طرح اُنھیں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال دیر میں گزارنے پڑے اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔ جہاں ان کا خاندان 1938ء تک مقیم رہا۔
بادشاہ صاحب کے ساتھ ایک مفاہمت اور مصالحت کے بعد اُن کا خاندان 1938ء میں واپس سوات آیا۔ لالا نے ودودیہ ہائی سکول سیدو شریف سوات میں داخلہ لیا اور اسی ادارے سے سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ اس کے بعد اُنھوں نے 1947ء میں اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لیا اور وہاں سے ہائیر سیکنڈری اسکول کی سند لی۔ اُنھیں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں بھی میرٹ پر سیٹ الاٹ کی گئی تھی، لیکن اُنھوں نے یہ سیٹ نہیں لی اور اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ جاری رکھا، جہاں سے اُنھوں نے 1950ء میں بیچلر آف آرٹس کیا۔ اُنھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے پولی ٹیکل سائنس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ اُنھوں نے اسلامیہ کالج پشاور سے ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی اور سوات بار ایسوسی ایشن کے بانی صدر بنے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُنھوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ پہلے تو اُنھوں نے ریاست سے بغیر معاوضہ لیے جہانزیب کالج سوات میں سیاسیات کے لیکچرار کی حیثیت سے پڑھایا، لیکن جب ریاستِ سوات کے حکم ران میاں گل عبدالحق جہانزیب کو شکوک و شبہات پیدا ہوئے، تو اُنھوں نے جلد ہی ناراض ہوکراستعفا دے دیا۔ جب ریاست، پاکستان میں ضم ہوئی، تو سوات میں نیا عدالتی نظام متعارف کرایا گیا۔ اُس وقت سوات میں قانونی تعلیم بہت کم تھی اور افضل خان لالا قانون میں ڈگری ہولڈر تھے۔ اس لیے اُنھوں نے ’’سوات بار ایسوسی ایشن‘‘ بنائی اور اس کے بانی صدر بنے۔ لوگ بنیادی طور پر غریب تھے۔ اس لیے اُنھوں نے بغیر فیس لیے اُن کے مقدمات لڑے۔ یہاں تک کہ سائل رات اُن کے ساتھ ٹھہرتے اور پھر وہ اُنھیں اپنی گاڑی میں عدالت لے کر جاتے۔ بہ طور وکیل اپنے کیرئیر کے دوران میں اُنھوں نے ایک بھی کیس نہیں ہارا۔
بد قسمتی سے پشتونوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ برے دور میں اُن کی قیادت کرنے کے لیے موثر قیادت کی کمی رہی۔ اس کے باوجود پشتون ماضی میں کچھ ایسی سرکردہ شخصیات ضرور ہیں، جنھوں نے اپنے درمیان اتحاد پیدا کرنے اور اپنی جد و جہد کو قومی اتحاد کے مشترکہ مقصد کے حصول کی طرف موڑنے کے لیے اپنی بھرپور جد و جہد کی۔ خیبر پختونخوا میں ایسی ہی شخصیات میں سوات میں ایک سرکردہ شخص تھا، جس کا نام افضل خان لالا تھا، جس نے اپنی ساری زندگی پشتونوں کو اکٹھا کرنے کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
جس وجہ سے محمد افضل خان لالا کو دنیا بھر کے پشتونوں میں نمایاں مقام حاصل ہوا، وہ اُن کی پشتونوں کو اکٹھا کرنے اور متحد کرنے کی جد و جہد تھی۔ وہ اُن کے درمیان اختلافات کے بارے میں بہت فکر مند تھے۔ اُنھوں نے ان پر زور دیا کہ وہ اپنے مسائل جرگے کے ذریعے حل کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ جرگوں کا اہتمام کرتے تھے اور پشتون رہ نماؤں کے سیمینار بلا کر ان کے مسائل پر بات کرتے تھے۔ وہ پشتونوں کے قومی اتحاد کے سخت حامی تھے۔
افضل خان لالہ ہمہ جہتی خصوصیات کے حامل انسان تھے، وہ بہ یک وقت استاد، وکیل، سیاست دان اور ادیب تھے۔ تدریسی عمل سے منسلک ہونے کی وجہ سے محمد افضل خان کو کتابیں لکھنے کا شوق تھا۔ اُنھوں نے چھے کتابیں ’’قامی وحدت‘‘ (قومی اتحاد، 1996ء)، ’’دَ ڈیورنڈ کرخہ‘‘ (ڈیورنڈ لائن، 2004ء)، ’’دَ پختون/ افغان قومی جرگہ‘‘ (پشتون/ افغان بزرگوں کی قومی کونسل، 2008ء)، ’’دَ منزل پہ لور‘‘ (منزل کی طرف، 2010ء)، ’’دَ پختونخوا غگ‘‘ (پختونخوا کی آواز، 2011ء) اور ’’دَ پختنو پہ خوارہ پردئ جھگڑا‘‘ (پشتونوں کی سرزمین پر ایلینز فائٹنگ) لکھیں۔
افضل خان لالہ نے پاکستان کی سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اُنھوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز نیشنل عوامی پارٹی سے کیا۔ 1970ء کے انتخابات کے دوران میں وہ "NAP” کے ٹکٹ پر ملاکنڈ ڈویژن سے ایم پی اے منتخب ہوئے اور "NAP” اور "JUI” کی مخلوط حکومت میں صوبائی وزیرِ اطلاعات، زراعت اور لوکل گورنمنٹ بنے۔
1989ء میں، اُنھوں نے عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی، لیکن ایک سال کے بعد، اُنھوں نے دیگر سینئر قوم پرست رہ نماؤں کے ساتھ اپنی پارٹی ’’پختونخوا قومی پارٹی‘‘ بنائی۔ وہ 1990ء کے انتخابات کے بعد ایم این اے منتخب ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ تھے۔ وہ بینظیر بھٹو کے ساتھ مخلوط حکومت میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بنے۔ 1993ء کے انتخابات میں کام یابی کے بعد وہ 1996ء تک بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں قبائلی علاقہ جات اور پھر شمالی علاقہ جات اور اُمورِ کشمیر کے وفاقی وزیر بنے۔ 1996ء میں بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد اُنھوں نے سیاست چھوڑ دی۔ 2015ء میں وہ انتقال کرگئے۔
2007ء میں سوات میں طالبان کی شورش سے بھری تحریک شروع ہوئی، جس کی جڑیں پرانی ’’تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدیؐ‘‘ (TNSM) میں تھیں، جس کی قیادت صوفی محمد نے 1990ء کی دہائی میں کی۔ اس بار مولانا فضل اللہ نے تحریک کی قیادت کی، جو ایف ایم ملا کے نام سے مشہور تھے اور صوفی محمد کے داماد تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب طالبان نے حکومتی اہل کاروں کے ساتھ ساتھ سوات کے سرکردہ لوگوں کو نشانہ بنایا، جو اُن کے نظریے اور تسلط کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔
محمد افضل خان لالہ نے شدت پسندوں، اسلام کی اُن کی تشریح اور معصوم لوگوں پر اُن کے مظالم کی شدید مذمت کی۔ شدت پسندوں نے اُنھیں دھمکیاں دیں اور اُن پر 10 بار حملے کیے۔ ستمبر 2007ء میں اُن کی گاڑی پر حملہ ہوا، جس میں اُن کے دو محافظ شہید اور وہ اپنے بھتیجے سمیت شدید زخمی ہوگئے۔ اُن کے دو بھتیجوں ذاکر خان اور شاکر خان کو گھات لگا کر حملہ کر کے شہید کر دیا گیا، لیکن ان تمام دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اُنھوں نے سوات نہیں چھوڑا اور 2015ء میں انتقال کرنے تک وہیں رہے۔
ایک پشتون قوم پرست ہونے کے ناتے اُنھوں نے اپنے لوگوں کو شدت پسندوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا اور تاریخ کے مشکل وقت میں اُن کے ساتھ رہے۔ حالاں کہ بہت سے نام ور لوگ سوات چھوڑ چکے تھے اور اس پُر آشوب دور میں ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہو گئے تھے۔ اُن کی بہادری کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے اُنھیں 10 جون 2009ء کو ہلالِ شجاعت سے نوازا۔
اکتوبر 2015ء میں ان کی طبیعت بگڑ گئی اور انھیں اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا، وہ جلد صحت یاب ہو کر اپنے آبائی شہر آگئے، لیکن کچھ ہی دیر میں وہ دوبارہ بیمار ہوگئے اور 31 اکتوبر 2015ء کو انھیں دوبارہ اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ اس بار بھی ان کی طبیعت سنبھل نہیں سکی اور اُنھوں نے یکم نومبر 2015ء کو ہسپتال میں آخری سانس لی۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 89 برس تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
