ایک بوڑھی خاتون اور والی سوات

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
مجھے نہیں معلوم کہ سوات کے حکم ران کی شاہی رہایش گاہ کے لیے باورچی خانے کے سامان کی فراہمی کیسے ہوتی تھی؟ لیکن ایک دن ایک سکول فیلو، جو مجھ سے ایک کلاس سینئر تھا، نے مجھے بتایا کہ اس کے والد کو والیِ سوات کے کچن کے لیے گوشت، سبزیاں اور مسالے وغیرہ کی فراہمی کا ٹھیکا دیا گیا ہے۔ روزمرہ کی اشیا پہلے مقامی ’’بازار‘‘ سے روزانہ کی بنیاد پر خریدی جاتی تھیں۔ چوں کہ حکم ران کو اس کے تمام اخراجات اپنی ذاتی جیب سے خود اٹھانے پڑتے تھے، اس لیے ٹھیکے دار کے ذریعے سامان حاصل کرنا مناسب سمجھا گیا۔ ابتدا میں چند ہفتے سب کچھ خوش اُسلوبی سے چلتا رہا، لیکن چند مہینوں کے بعد والی صاحب کو محسوس ہوا کہ کوئی گڑبڑ کی جا رہی ہے۔ حالاں کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کے متعلق حسنِ ظن رکھتے تھے۔ بہ ہرحال، اپنے شکوک و شبہات کی بنیاد پر کچھ کارروائی کرنے سے پہلے، انھوں نے جائے خرید سے لے کر کھانے کی پلیٹ تک کے پورے سلسلے کو چیک کرنے اور کاونٹر چیک کرنے کا فیصلہ کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ جلد بازی میں کوئی قدم اٹھا کر کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔
آخرِکار یہ کام عملے اور ٹھیکے دار کے علم میں لائے بغیر کیا گیا۔ ایک شام، والی صاحب نے غیر متوقع طور پر کہا، یہ سبزی کی پلیٹ مجھے 120 روپے میں پڑی ہے (یہ قیمت اُس وقت کے حساب سے بہت زیادہ تھی)۔ ان کے ساتھ کھانے پر موجود افسر خاموش رہے۔ انھوں نے حکم دیا کہ ٹھیکے دار کو تحویل میں لیا جائے اور اگلے دن عدالتی اوقات میں ان کے سامنے پیش کیا جائے۔
مختصر یہ کہ اُس آدمی کو غیر متعینہ مدت کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔
ملزم کی ماں بہت بوڑھی تھی۔ والی صاحب اس کو اچھی طرح جانتے تھے۔ کیوں کہ اس کا مرحوم شوہر ان (والی صاحب) کے بچپن کا استاد رہ چکا تھا۔ بوڑھی خاتون کو شدید صدمہ پہنچا اور اس نے اپنے بیٹے کو رہا کروانے کے لیے مختلف ذرائع سے کوشش کی، لیکن بے سود۔ ایک شام کسی نے اسے بتایا کہ والی صاحب حسبِ معمول اپنے والد سے ملاقات کے لیے عقبہ گئے ہوئے ہیں۔ وہ سرکلر روڈ تک گئی اور وہاں پی ڈبلیو ڈی سٹور کے قریب انتظار کرنے لگی۔
والی صاحب جب محافظوں کے ہم راہ وہاں پہنچے، تو بوڑھی خاتون دوڑتی ہوئی ان کے سامنے آ گئی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر غصے سے بولی، ’’کیا تم میرے بیٹے کو رہا نہیں کروگے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا، ’’ماں، تمھارے بیٹے نے میرا اعتماد توڑا ہے۔‘‘ خاتون نے تیز اور غصے بھرے لہجے میں کہا، ’’تمھیں شرم نہیں آتی، اس کے والد نے تمھیں قرآن پڑھایا تھا۔‘‘ والی صاحب خاموش کھڑے رہے اور چند لمحوں بعد گارڈ سے کہا کہ فوراً جیل جا کر جیل صوبے دار سے کہو کہ ملزم کو رہا کر دے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے