جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جائے اور سچائی کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، تب ایک ایسا دور آتا ہے، جہاں چراغ اندھیروں میں بھی روشنی پھیلانے لگتے ہیں۔
ایسا ہی ایک چراغ ’’دارِ ارقم‘‘ تھا، وہ پہلا مرکزِ علم جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنہ کو دینِ اسلام کی تعلیمات سکھائیں۔ اُنھیں استقامت، حکمت اور صبر کا درس دیا اور وہ بنیاد رکھی جس پر بعد میں اسلام کی عظیم عمارت کھڑی ہوئی۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی کا نزول ہوا اور آپ نے لوگوں کو توحید کی طرف بلانا شروع کیا، تو قریش کے سرداروں کو یہ گوارا نہ تھا کہ اُن کے باطل معبودوں کو جھوٹا کہا جائے۔
اسلام کی دعوت کے ابتدائی ایام میں وہ لوگ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لے آتے، اُنھیں بدترین مظالم کا سامنا کرنا پڑتا۔ اُس دور میں ایک خفیہ اور محفوظ مقام کی ضرورت تھی، جہاں مسلمان بلا خوف و خطر قرآن، حدیث اور اسلامی تعلیمات سیکھ سکیں۔
یہ موقع حضرت ارقم بن ابی الارقم رضی اللہ عنہ نے فراہم کیا۔ اُن کا گھر مکہ میں صفا پہاڑی کے قریب ایک ایسی جگہ پر واقع تھا، جو قریش کی سرگرمیوں سے نظروں اوجھل رہتی تھی۔ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تقریباً تین سال تک اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو دینِ اسلام کی بنیادی تعلیمات سکھائیں، اُنھیں عقیدۂ توحید کی وضاحت دی، صبر و استقامت کا درس دیا اور اُن کے دلوں میں دینِ حق کے لیے محبت و ایثار کا جذبہ پیدا کیا۔
یہی وہ مقام تھا، جہاں اسلام کی اولین جماعت نے پروان چڑھی۔ یہاں بیٹھنے والے صحابہ بعد میں اسلام کے عظیم مبلغ، قاضی، سپہ سالار اور خلفا بنے۔ انھی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور دیگر جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔
یہاں کی سب سے یادگار اور تاریخی تبدیلی اُس وقت رونما ہوئی، جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تلوار لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے، مگر جب اُن کے دل کو نورِ ایمان نصیب ہوا، تو وہ اسی دارِ ارقم میں آ کر اسلام لے آئے۔ اُن کے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں کو تقویت ملی اور اسلامی دعوت کا ایک نیا باب کھلا۔
یہ محض ایک مکان نہ تھا، بل کہ یہ اسلام کی پہلی باقاعدہ درس گاہ تھی، جہاں دین کی تبلیغ اور تربیت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو صرف نظریاتی تعلیم ہی نہیں دی، بل کہ عملی زندگی کے لیے بھی تیار کیا۔ یہی وہ درس گاہ تھی، جہاں سے اسلامی انقلاب کی بنیاد پڑی، جو بعد میں پوری دنیا میں پھیل گئی۔
دارِ ارقم کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ اسلام کا پہلا ایسا مرکز تھا، جہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے، اُنھیں دینی بصیرت دینے اور عملی زندگی میں اسلام کے اُصولوں پر چلنے کی تربیت دی جاتی تھی۔
دارِ ارقم کا پیغام آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آج کے دور میں جب اسلام دشمن قوتیں دین کے خلاف مختلف محاذوں پر سرگرم ہیں، ہمیں دارِ ارقم کی روایت کو زندہ کرنا ہوگا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں علمِ دین کے مراکز کو فروغ دینا ہوگا، قرآن و حدیث کی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا اور نئی نسل کو اسلامی اُصولوں سے روشناس کرانا ہوگا۔
دارِ ارقم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تعلیم اور حکمت کے ذریعے ہی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے چند افراد نے ایسی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی، جو بعد میں دنیا کے بڑے حصے پر حکم رانی کرنے لگی۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر اخلاص، صبر اور استقامت کے ساتھ دین کی خدمت کی جائے، تو ایک چھوٹے سے چراغ کی روشنی بھی پوری دنیا کو منور کرسکتی ہے۔
دارِ ارقم کا پیغام واضح ہے: تعلیم، حکمت اور استقامت کے ساتھ دین کا کام جاری رکھو، کیوں کہ یہی کام یابی کی اصل کنجی ہے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
