’’معین الطریقت‘‘ کا مختصر سا جائزہ

Semeen Kirim

تبصرہ: سیمیں کرن
’’معین الطریقت‘‘ جب میرے ہاتھ آئی جو کہ شیخ ابنِ عربی کے رسالہ ’’الامر المحکم المربوط فی ما یلزم اہل طریق اللہ من الشروط‘‘ کا اُردو ترجمہ ہے اور اسے اُردو قالب میں پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی نے ڈھالا ہے۔ وہ خود ایک معروف علمی روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ بہت سی علمی، تحقیقی و ادبی کتابوں اور مقالوں کے مولف و مصنف، فارسی اُردو کے مایہ ناز شاعر مترجم ہیں، گویا اِک چراغ ہیں جو چہار سو روشنی بکھیر رہے ہیں۔
یہ رسالہ جب ہاتھ آیا کہ اس کا پرنٹ لے لیا تھا، تو بہت سا تجسس اور ذہن میں بہت سے سوالات تھے۔ غلط فہمیاں جو ابنِ عربی کے نام کے ساتھ منسوب ہیں۔ یہ رسالہ بہت سی گرد صاف کرنے میں کامیاب ٹھہرتا ہے۔اس میں دو تقاریظ شامل ہیں، جو علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری اور ڈاکٹر عارف نوشاہی کے دست قلم سے وجود میں آئیں اور دونوں بہت جان دار ہیں۔ جیسے علامہ فرماتے ہیں کہ نفس کو اخلاقِ زمیمہ اور اوصافِ قبیحہ سے پاک کرکے مقامِ اخلاص و احسان تک پہنچانے کا نام تصوف ہے۔
پھر امام مالک کا یہ قول: ’’وہ صوفی جو فقہ سے باخبر نہیں، وہ زندیق ہے اور جو فقیہ تصوف سے آشنا نہیں، وہ فاسق ہے اور جو دونوں کا جامع ہو وہ محقق ہے۔‘‘
شیخ اکبر کے ضمن میں اُن کی کتب ’’فتوحات مکیہ‘‘ اور ’’فصوص الحکم‘‘ کی بابت وہ لکھتے ہیں کہ ان کتب کے مطالعے سے عوام تو عوام خواص میں بھی وہ جو کتاب و سنت اور حقائقِ معارف اور اصطلاحاتِ تصوف سے گہری واقفیت نہیں رکھتے، منع کیا گیا۔ اس کی دو بڑی وجوہات بیان کی گئیں۔
ایک، عبارت کے ظاہری معانی لیے جاتے ہیں، جب کہ ان پہ ٹائم لاکس کے پردے ہیں۔
دوسری، ابنِ عربی کی عظمت و مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے غیر مسلموں نے بہت آمیزش کی۔
شیخ ابو الطاہر المغربی نزیل مکہ مکرمہ نے علامہ عبدالوہاب شعرانی کو بتایا کہ اُنھوں نے مجھے فتوحات کا وہ نسخہ دکھایا، جس کا مقابلہ قونیہ میں شیخ کے اپنے ہاتھ سے لکھے نسخے سے کیا گیا۔ اس میں ایسا کچھ نہیں تھا جس پہ تردد ہوتا۔
عارف نوشاہی رقم طراز ہیں کہ مولانا شہاب الدین سے فصوص کی بابت رائے مانگی گئی۔ فرمایا، ہم نے یہ کتاب نہیں دیکھی۔ ہم کیا کَہ سکتے ہیں؟ کتاب دیکھنے کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔ پھر بعد از مطالعہ فرمایا، فصوص الحکم کو جو سمجھا ہے، وہ تو جلانے کے بالکل قابل نہیں اور جو نہیں سمجھ سکا، اُس کے بارے میں رائے کیسے دوں؟ یہ جواب منطقی بھی ہے اور صوفیانہ رواداری کا مظہر بھی۔
ابنِ عربی کی تمام ادق کتابوں کے برعکس ان کے رسالے ’’الامر المحکم المربوط‘‘ پہ نظر ڈالتے ہیں، تو اُسلوب، معنی اور ظاہری لحاظ سے بالکل مختلف ہے۔
عارف نوشاہی بتاتے ہیں کہ شیخ اکبر کے افکار و آثار سے اعتنا و احترام تمام سلاسل تصوف میں موجود ہے اور سلسلۂ چشتیہ کے مشائخ اور چشتی خانقاہوں میں ان کے افکار پہ بحث معمولات تصوف کا حصہ رہی ہے۔
معین نظامی صاحب نے ترجمہ سہل اور سلیس کیا ہے۔ شیخ اکبر نے جا بہ جا قرآن و حدیث کے حوالے دیے ہیں اور مرشد اور مرید کی تربیت کو مدنظر رکھ کر اہم ہدایات دی ہیں جو ہر دور میں اہم ہیں۔
جیسے جان لیجیے مقام شیخ پہ فائز ہوجانا سالک کی منزل مقصود نہیں ……دیکھیے سادہ جملہ مگر بہت معنی پنہاں ہیں۔
تصوف سے دل چسپی رکھنے والے احباب کے لیے یہ ایک توشۂ خاص ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے