مہذب ’’ایپ‘‘ کا غیر مہذب استعمال

Blogger Sajid Aman

میرے ’’واٹس ایپ‘‘ نمبر پر اتنے گروپ ہیں کہ جنھیں صرف دیکھنے کے لیے لمبا وقت چاہیے ہوتا ہے۔ پڑھنے اور سننے تو دور کی بات ہے۔
’’واٹس ایپ‘‘ یا سمارٹ فون جو ایک مہذب ذریعۂ مواصلات ہے، اسے ہمارے لوگوں نے انتہائی غیر مہذب صورت دی ہوئی ہے۔ اس کے ذریعے ہر شخص فون اپنی سہولت کے مطابق کال کرے گا۔ آپ کیا کر رہے ہیں؟ اس سے کسی کو قطعاً غرض نہیں۔ فون ایک بار نہ اُٹھایا، یا غلطی سے کاٹ دیا، تو اگلے والا یا تو آپ کے فون کی بیٹری ختم کردے گا، یا آپ کو فون خاموش کرنے، بند کرنے یا جبراً اُٹھانے پر مجبور کرے گا۔
اسی طرح واٹس ایپ کہنے کو تو سوشل میڈیا (مہذب ذریعہ) ہے، مگر ہر شخص کے پاس خبروں کے 5، 10گروپ ہوں گے، جس میں کسی بندے کو جبراً شامل کیا گیا ہوتا ہے، یا کبھی خود معلومات کے لیے شامل ہوکر غلطی کی گئی ہوتی ہے۔ اب خبروں کی بھرمار ہوگئی۔ مذہبی جماعتوں کے کئی قسم کے گروپ سرگرم ہوں گے اور اُن میں اتنی اچھی اچھی باتیں آرہی ہوں گی کہ اگر معاشرہ 5 فی صد بھی عمل کرے، تو سب کی تقدیر بدل جائے۔ بعض اوقات لگتا ہے کہ پیغام یہ آ رہا ہے کہ ’’ہمیں پتا ہے، مگر عمل نہیں کریں گے!‘‘
’’پختون‘‘ کے نام پر متعدد گروپ رونے پیٹنے میں مشغول ہوتے ہیں۔ سیاسی گروپوں میں شخصیت پرستی جاری ہوتی ہے، جب کہ کاروباری گرپوں میں کاروبار کے علاوہ اور سب کچھ ہوتا ہے۔
قارئین، گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں 75 فی صد لوگ کبھی کسی قسم کی کتاب نہیں پڑھتے اور جو باقاعدہ کتابیں پڑھتے ہیں، اُن کی تعداد قلیل ترین ہے۔
اب کُل ملا کے وقت گزاری کے لیے بس سوشل میڈیا ہی رہ گیا ہے، جس پر ثوابِ دارین حاصل کرنے سے لے کر جہنم کے سب سے نچلے حصے تک کا مواد بالکل ’’مفت‘‘ حاصل ہے۔ باقاعدہ ’’ٹرینڈز‘‘ چلتے ہیں اور چلتے ہی رہتے ہیں۔
پاکستان میں ہر کوئی موجد ہے۔ پہلے لوگ جعلی خبریں بناتے تھے،ایویں افواہیں پھیلاتے تھے، مگر اب واٹس ایپ گروپ ایجاد ہو رہے ہیں۔ کسی بھی مجلس میں بیٹھے ہوں، ایک مہذب شخص کے فون کی گھنٹی بجتی ہے، وہ جیسے ہی واٹس ایپ کھولتا ہے، تو ایک خوف ناک ویڈیو یا آڈیو سامنے آجاتی ہے۔
’’آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ مثل غلط ہے۔ ہر آدمی میں دو آدمی موجود ہوتے ہیں: ایک جو سامنے ہوتا ہے، دوسرا جو پیکنگ کے اندر ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا نے آدمی کے دونوں روپ بگاڑ کر رکھ دیے ہیں۔
اسلام میں ہے کہ زنا کی دو اقسام ہیں: عملی زنا اور آنکھوں کا زنا۔
اس طرح مسیحی کہتے ہیں کہ زنا کی تین اقسام ہیں: عملی، آنکھوں اور دل کے خیالات کا زنا۔
اب چوں کہ ہم (الحمد للہ) مسلمان ہیں، تو دل پشوری سوشل میڈیا کے ذریعے کرنے کے علاوہ تصوراتی بھی کرتے ہیں، مگر سوشل میڈیا بھرم نہیں رکھتا کسی کا۔ ہر ایک کا موبائل مختلف قسم کے کوڈز سے ’’لاک‘‘ رہتا ہے۔ کوئی ایسا نہ کرے، تو راز فاش ہو جائیں گے۔ وہ بھی کیا راز ہیں جو خود کو پتا ہیں، مگر دوسروں سے چھپائے جاتے ہیں۔ خود سے ڈر نہیں لگتا اور دوسروں سے خوف زدہ ہیں۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ سوشل میڈیا اور موبائل فون ہمارے لیے امتحان ہیں۔ سوچیں کہ ہم ان کے ساتھ کھیلتے ہیں، یا پھر ان کے ذریعے ہمارے ساتھ کھلواڑ جاری ہے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے