پاکستان میں بھکاری مافیا ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جو نہ صرف ملک کے اندر بل کہ بیرونِ ممالک بھی پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ معاشی بدحالی، بے روزگاری اور منظم گینگوں کے ہاتھوں مجبور افراد خلیجی ممالک کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں مختلف طریقوں سے بھیک مانگ کر ملکی وقار کو مجروح کرتے ہیں۔
سعودی عرب، عمان، متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے ممالک میں پاکستانی بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے پاکستان کے لیے ایک نیا سفارتی اور ’’امیگریشن چیلنج‘‘ کھڑا کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں سخت کارروائیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، یکم جنوری سے 3 مارچ 2025ء کے دوران میں مختلف خلیجی ممالک سے 96 پاکستانی بھکاریوں کو گرفتار کرکے ملک بدر کیا گیا۔ اس کے علاوہ، کراچی ایئرپورٹ پر خلیجی ممالک کا سفر کرنے والے 14 بھکاریوں کو ’’آف لوڈ‘‘ کر دیا گیا، تاکہ وہ وہاں جاکر پاکستان کے لیے شرمندگی کا باعث نہ بنیں۔ امیگریشن ذرائع کے مطابق، سعودی عرب جانے کی کوشش کرنے والے محمد امان، محمد ندیم، محمد نواز، کریم خاتون، عظمیٰ بیگ، تہمینہ بیگ، عبدالرشید کو آف لوڈ کرکے ان کے خلاف 5 انکوائریاں درج کی گئیں۔
عمان جانے والے معشوق علی، علی رضا، سلطان علی کے خلاف 3 انکوائریاں اور قطر جانے والے جمیل احمد، محمد جریل کے خلاف 1 انکوائری رجسٹرڈ ہوئی۔
اسی طرح، ایران جانے کی کوشش کرنے والے محمد جاتون اور بحرین جانے والی ایک خاتون کو بھکاری ثابت ہونے پر روکا گیا اور اُن کے خلاف انکوائری شروع کی گئی۔
یہ بھکاری عام طور پر منظم گروہوں اور ایجنٹوں کے ذریعے بیرونِ ملک پہنچتے ہیں، جو اُنھیں سیاحتی یا عمرہ ویزے پر بھجواتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر یہ افراد سڑکوں، بازاروں اور مساجد کے باہر مختلف حیلے بہانوں سے بھیک مانگتے ہیں۔
زیادہ تر بھکاری معذور ہونے یا لاچار ہونے کا ڈراما کرتے ہیں۔ کچھ چھوٹے بچوں کے ساتھ سڑکوں پر بیٹھ جاتے ہیں، جب کہ کچھ مذہبی مقامات پر زائرین کو جذباتی طور پر متاثر کرکے پیسے حاصل کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے، بل کہ عام پاکستانی مسافروں کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ کیوں کہ اب خلیجی ممالک میں امیگریشن حکام پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے افراد کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔
پاکستانی حکومت نے اس خطرناک رحجان کے خلاف سخت کارروائی شروع کر دی ہے۔ ایف آئی اے کے ’’اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل‘‘ اور امیگریشن حکام نے کراچی میں 46 انکوائریاں درج کی ہیں، جب کہ ملک بھر میں مزید تحقیقات جاری ہیں۔
حکومت نے سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال سخت کر دی ہے، تاکہ بھکاریوں کے بیرون ملک جانے کے امکانات کو کم کیا جاسکے۔ تاہم، اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے مزید اقدامات ناگزیر ہیں۔ امیگریشن قوانین کو مزید سخت بنانے، ایجنٹوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ لوگ بھکاری مافیا کے جال میں نہ پھنسیں۔
یہ مسئلہ صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود نہیں، بل کہ پوری قوم کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ جب پاکستانی شہری بھیک مانگنے کے الزام میں پکڑے جاتے ہیں، تو سفارتی سطح پر پاکستان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور سول سوسائٹی مل کر اس لعنت کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ معاشرتی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کیے جائیں، تاکہ غریب اور بے سہارا افراد کو روزگار کے بہتر مواقع مل سکیں۔
مزید برآں، امیگریشن حکام کو چاہیے کہ وہ سیاحتی اور عمرہ ویزے پر جانے والے مشکوک افراد کی کڑی نگرانی کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بھکاریوں کی بیرونِ ملک منتقلی روکی جاسکے۔
پاکستان کو عالمی سطح پر ایک باعزت اور ترقی پسند ملک کے طور پر پہچان دلانے کے لیے ضروری ہے کہ بھکاری مافیا کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے۔ حکومت نے اس حوالے سے جو اقدامات کیے ہیں، وہ قابلِ تعریف ہیں، لیکن اس مسئلے پر مکمل قابو پانے کے لیے مزید سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آج موثر کارروائی نہ کی گئی، تو مستقبل میں اس کا نقصان پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
