(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
بہت سے لوگ، خاص طور پر تاریخ کے شائق طلبہ، مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ریاست نے عورتوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے کیا کیا ہے اور کیا عورتوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے کوئی قوانین متعارف کروائے گئے؟ چوں کہ مَیں کسی بھی طرح سے ریاست کے عدالتی نظام سے منسلک نہیں رہا، لیکن خوش قسمتی سے مجھے کئی ریاستی ادوروں کے کام دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمارے گھر کے قریب افسر آباد میں دو عدالتیں تھیں، ایک تحصیل دار اور دوسری مشیر کی۔ مَیں نے ان عدالتوں میں کام کرنے والے کئی افسران کو دیکھا، جیسے کہ محمد مجید خان، بہروز خان مشیر کے طور پر، عبد الجلیل خان، سیف الرحمان، سرفراز خان تحصیل دار کے طور پر، شیر شاہ خان، عزیز الرحمان، فصیح اللسان حاکم مشیر کے طور پر۔ عجب خان اور بہت سے دیگر بااثر افسران، جو خاندانی تنازعات اور جائیداد کے معاملات میں انصاف فراہم کر رہے تھے۔
یہ سب کہنے کے با وجود، میرا خیال ہے کہ سوات کے حکم ران عورتوں کے حالات میں اہم تبدیلی نہیں لاسکے۔ اس سلسلے میں میرا مشاہدہ یہ رہا ہے کہ ریاست کے پاس معاشرے کے سماجی رسم و رواج کے حوالے سے اصلاحات نافذ کرنے کا کوئی لازمی اختیار نہیں تھا۔ وہ مطلق العنان ڈکٹیٹر نہیں تھے، بل کہ مختلف خیلوں اور قبائل کے جرگوں کے ساتھ ایک سماجی معاہدے کی حدود میں رہنے کے پابند تھے۔ ہر جرم کے لیے جرمانے اور سزائیں، ان جرگوں کے باہمی مشورے سے طے کی گئی تھیں۔ یہ حکم ران اور اس کی رعایا کے درمیان ایک قسم کا غیر تحریری سماجی معاہدہ تھا۔ عورتیں بھی مردوں کی طرح صدیوں پرانے نظام میں زندگی گزار رہی تھیں۔ مزید براں زیادہ تر خیلوں کا عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مختلف نقطۂ نظر تھا۔
مَیں نے سوات میں عورتوں کے حقوق کے علم برداروں سے پوچھا کہ جب سے سوات کی ریاست پاکستان میں ضم ہوئی ہے، پچھلے 50 سالوں میں وہ کیا تبدیلی دیکھ رہے ہیں؟ اسلام میں عورتوں کے حقوق کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، لیکن پاکستان کے مردانہ حاکمیت والے معاشرے نے کبھی ان کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان خواتین کو نکاح کرنے سے زبردستی روکا جاتا ہے، جو کسی بڑی جائیداد کی وراثت رکھتی ہیں۔ کیا کوئی کسی قبیلے کے علاقوں سے ایک مثال دے سکتا ہے کہ جہاں کوئی عورت اسلامی طریقے سے وراثت میں حصہ حاصل کرسکے؟
بہ ہرحال، اُس وقت کے حکم رانوں نے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کچھ کام کرنے کی کوشش کی تھی۔ مثال کے طور پر، جسمانی حملوں کی درجہ بندی کی گئی اور ایسے معاملات میں سزائیں عائد کی گئیں۔ نکاح نامہ یا شادی کے معاہدے کا اندراج لازمی تھا، تاکہ دلھن کا مہر اور دیگر حقوق یقینی بنائے جاسکیں۔ عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں وقتاً فوقتاً سخت سزائیں جاری اور سختی سے نافذ کی گئیں، جنھیں ’’رواج نامہ‘‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ زنا کے الزام پر کسی عورت کی ناک کاٹنے والوں کو سخت قید کی سزائیں دی گئیں۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ گھریلو مسائل اور عورتوں کی دیگر مشکلات میں بہت سی کیسوں کا فیصلہ عورتوں کے حق میں دیا گیا۔ طلاق کے قوانین بھی مرتب کیے گئے۔
پاکستان بھر میں عورتیں ایک ہی قسم کی بدقسمتیوں اور زیادتیوں کا سامنا کر رہی ہیں، تو پھر سوات میں میانگلوں کی 50 سالہ حکومت کو کیوں نشانہ بنایا جائے…… کیا یہ بے انصافی نہیں؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
