وقت کے ساتھ ساتھ ڈاکوؤں نے بھی اپنی واردات کے طریقے تبدیل کرلیے ہیں۔ پہلے صرف رات کے اندھیرے میں ڈاکے ڈالے جاتے تھے۔ جس گھر میں واردات کرنے جانا ہوتا، وہاں جانے سے پہلے مکمل منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ اگر کسی بڑے زمین دار یا چوہدری کے گھر ڈاکا ڈالنا ہوتا، تو اس گھر کے کسی ملازم کو ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی، جو مقررہ وقت پر مین گیٹ کھول کر کام آسان کر دیتا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوپاتا، تو ڈاکوؤں کا اپنا کوئی پھرتیلا ساتھی دیوار پھلانگ کر گیٹ کھولتا۔ دیوار پھلانگنے کے لیے سیڑھی کا استعمال بھی کیا جاتا تھا۔ تب ڈاکو دلیر ہوا کرتے تھے، اَب دلیری کی جگہ مکاری نے لے لی ہے۔
اَب رات کی بہ جائے دن کے وقت ڈاکا ڈالنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ واردات کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا جاتا ہے، جب گھر میں مرد حضرات موجود نہ ہوں۔ صرف خواتین کی موجودگی میں واردات کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ خواتین جلدی خوف زدہ ہوجاتی ہیں۔ گھر میں چھوٹے بچے ہوں، تو ڈاکوؤں کو واردات کرنے میں زیادہ آسانی ہوجاتی ہے۔ بچے کو گن پوائنٹ پر رکھ کر اُس کی ماں یا بہن سے گھر کی چابیاں، زیور، نقدی اور دیگر قیمتی چیزیں آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
گذشتہ سال لاہور شہر میں ڈاکوؤں نے واردات کے لیے بالکل نیا طریقہ اختیار کیا تھا۔ ڈاکو محکمہ واپڈا کی وردی پہن کر وارداتیں کرتے رہے۔ یہ کُل چار یا پانچ لوگ ہوتے تھے، جو جعلی سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑی پر سوار ہو کر دن کے 11 سے 4 بجے کے درمیان وارداتیں کرتے تھے۔ یہ وقت ایسا ہے جب مرد لوگ کام کاج اور ڈیوٹی یا کاروبار کے سلسلے میں گھر سے باہر ہوتے ہیں اور گھر میں عام طور پر صرف خواتین ہی موجود ہوتی ہیں۔
ان کا طریقۂ واردات یہ تھا کہ اپنے ٹارگٹ کیے ہوئے گھر کا گیٹ کھٹکھٹاتے یا کال بیل بجاتے۔ اندر سے پوچھنے پر یہ بتاتے کہ واپڈا کی طرف سے ’’سولر سسٹم سکیم‘‘ کا سروے کرنے کے لیے آئے ہیں۔ آپ کے گھر کا لوڈ چیک کرنا ہے۔ اگر آپ لوگ مطلوبہ معیار پر پورا اُترتے ہیں، تو آپ کے گھر میں پنجاب حکومت کی طرف سے سولر سسٹم پہنچا دیا جائے گا۔ بجلی کے بِلوں نے ہر گھر کو پریشان کر رکھا ہے۔ سبھی بھاری بلوں سے نجات چاہتے ہیں۔ خواتین ان لوگوں کے جھانسے میں جلدی آ جاتیں۔ یہ لوگ گھر سے باہر لگے بجلی کے میٹر کو چیک کرتے۔ اس کے بعد گھر کا لوڈ چیک کرنے، پنکھوں، بلب اور فریج وغیرہ کی تعداد دیکھنے کے بہانے گھر کے اندر آنے کی اجازت طلب کرتے، جو انھیں آسانی سے مل جاتی۔ یہ گھر کے اندر داخل ہوتے اور اسلحہ کے زور پر چند ہی منٹ میں واردات کرنے کے بعد اہلِ خانہ کو باندھ کر فرار ہو جاتے۔ گھر سے باہر گلی کے لوگوں کو واردات کی خبر تک نہ ہو پاتی۔
آج کل کچھ نسبتاً چھوٹے وارداتیے گھر گھر جا کر سولر سسٹم کا سروے کرنے کے نام پر فی گھر 500 سے 1000 روپے فیس کے نام پر اکٹھا کرتے پائے گئے ہیں۔ یہ 50 سے 100 گھروں کا روزانہ ڈیٹا اکٹھا کرکے اپنی دیہاڑی کھری کرلیتے ہیں۔ یہ کام دیہاتی علاقوں میں ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔
پولیو کے قطرے پلانے والی جعلی ٹیم کے روپ میں گھروں میں گھس کر وارداتیں ہونے کی خبریں بھی گردش میں ہیں۔
ایسی عورتیں بھی وارداتوں میں ملوث ہوتی ہیں جو چل پھر کر گھروں میں کپڑا، چادریں یا دوسرا سامان بیچتی ہیں۔ یہ گھر میں داخل ہو کر حالات کا جائزہ لیتی ہیں اور گھر سے باہر موجود اپنے ساتھیوں کو بہ ذریعہ فون آگاہ کر دیتی ہیں۔ آج کل رمضان کا مقدس مہینا چل رہا ہے۔ وارداتیوں کی خواتین فطرانہ اور خیرات مانگنے کے بہانے گھروں میں گھس جاتی ہیں اور پھر مردوں کو بلا کر واردات کرکے نکل جاتی ہیں۔
شہریوں کو ان وارداتیوں سے ہوش یار رہنے کی ضرورت ہے۔ گھر کی خواتین کو بتا دیجیے کہ کوئی خود کو واپڈا، محکمۂ صحت یا کسی بھی دوسرے محکمے کا نمایندہ ظاہر کرے، یا پھر کسی قسم کا سروے کرنے کے لیے کوئی آئے، یہاں تک کہ کوئی اجنبی خاتون دوائی کھانے کے لیے پانی پینے کے بہانے گھر کے اندر آنے کی کوشش کرے، یا کوئی بھکاری عورت بھیک مانگنے کے لیے گھر میں گھسنے کی کوشش کرے، آپ نے کسی صورت بھی کسی اجنبی کے لیے گھر کا دروازہ نہیں کھولنا۔
ان لوگوں کی آڑ میں وارداتیے سرگرم ہیں، جو لوگوں کو ان کے مال و زر سے ہی محروم نہیں کرتے، بل کہ معمولی خطرہ محسوس ہونے پر جان بھی لے لیتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
