جہانزیب کالج میں میرا پہلا اینول ڈے

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
1958ء میں ودودیہ سکول سے سکول لیونگ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد، مَیں نے علاقے کے سب سے معزز اور معروف کالج، جہانزیب کالج سیدو شریف، میں داخلہ لیا۔ میرا گھر افسر آباد میں تھا اور مَیں صرف 5 منٹ میں کالج پہنچ جاتا تھا۔ بریکوٹ، چار باغ، کوزہ بانڈئی اور برہ بانڈئی کے دور دراز علاقوں سے طلبہ فلپ اور ریلے برانڈ کی سائیکلوں پر آتے تھے۔
برہ بانڈئی کے میرے ایک کلاس فیلو فضل معبود تھے، جن کے والد ریاستی افواج میں صوبیدار میجر تھے۔ ان کا نام شاہ حیدر خان، آشا خیل تھا۔ فضل معبود کا دایاں ہاتھ بچپن میں کسی بیماری کی وجہ سے بہت چھوٹا رہ گیا تھا، شاید پولیو، ورنہ ان کے بازو اور کہنیاں عام سائز کی تھیں۔ وہ بائیں ہاتھ سے لکھتے تھے۔ وہ بہت ذہین تھے اور ان کی یادداشت اور قوتِ اظہار شان دار تھی۔
آرٹس سیکشن میں ایک اور نمایاں طالب علم شیخ نسیم احمد تھے، جو لاہور سے تھے۔ ان کا کتابی چہرہ ہڈیوں کا مرقع تھا اور وہ ہلکا میک اَپ بھی کرتے تھے۔ انھیں مجھ سے بہت اُنس تھا۔ وہ انگریزی میں بہت تیز تھے اور کالج کی انگریزی کے مباحثوں میں چمپئن تھے۔ مَیں اکثر شام کو مینگورہ ہوسٹل جاتا تھا، جہاں وہ ایک کمرے میں مقیم تھے۔ وہ چولھے پر ’’کافی‘‘ تیار کرتے اور ہم اس خوش بو دار مشروب کی چسکیاں لیتے اور مختلف موضوعات پر گفت گو کرتے۔
پہلے سال کے سالانہ امتحان کے بعد، نتائج کا اعلان کیا گیا اور میں انگریزی، تاریخ اور سیاسیات میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ شیخ نسیم انگریزی میں میرے بعد آئے اور فضل معبود باقی مضامین میں دوسرے نمبر پر رہے۔
سالانہ دن کی تیاری میں کالج انتظامیہ، طلبہ یونین کابینہ اور پروکٹوریل بورڈ نے جوش و خروش سے حصہ لیا۔ ولی عہد، شہزادہ میانگل اورنگزیب چیف گیسٹ تھے۔ طلبہ کے والدین بھی مدعوین میں شامل تھے۔ چیف گیسٹ مقررہ دن اور وقت پر تشریف لائے اور تالیوں کی گونج میں اسٹیج پر اپنی نشست سنبھالی۔ قرآن پاک کی تلاوت کے بعد، پرنسپل نے سالانہ رپورٹ پیش کی۔ اس کے بعد اسٹیج سکریٹری نے انعامات کی تقسیم کا آغاز کیا۔ اس نے چیف گیسٹ سے درخواست کی کہ وہ اسٹیج پر آئیں اور انعامات تقسیم کریں۔ جب اسٹیج سکریٹری نے میرا نام انگریزی میں پہلی پوزیشن کے لیے اعلان کیا، تو مَیں طلبہ اور مہمانوں کی زبردست تالیوں کی گونج میں اُٹھا، اسٹیج پر گیا، شہزادے سے ہاتھ ملایا اور ان کے ہاتھوں سے ایک کتاب اور ایک سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ اس کے بعد شیخ نسیم کا نام انگریزی میں دوسری پوزیشن کے لیے پکارا گیا۔ اس کے بعد اعلان ہوا کہ تاریخ میں بھی میں پہلی پوزیشن پر ہوں۔ مَیں دوبارہ اُٹھا اور پہلی پوزیشن کا انعام حاصل کیا۔ فضل معبود میرے بعد دوسرے نمبر پر آئے۔
تیسرا اعلان بھی میرے لیے تھا، سیاسیات میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر۔ جب مَیں اسٹیج پر گیا اور شہزادے سے سرٹیفکیٹ اور تحفہ وصول کیا، تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا، ’’کیا تم ہی ساری فرسٹ پوزیشنیں لوگے؟ دوسروں کو بھی موقع دینا تھا۔‘‘
اس دن میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی اور میرے والد بھی بہت خوش تھے۔ جو کتابیں مجھے ملی تھیں، وہ تھیں ’’پک وک پیپرز‘‘ جو چارلس ڈکنز کی تحریر ہے اور ’’دی ووڈ لینڈرز‘‘ جو تھامس ہارڈی کی ہے…… لیکن یہیں میری شان دار شروعات کا اختتام ہوگیا۔
فضل معبود خوش قسمت تھے کہ وہ اُستاد بنے اور تدریس کے شعبے میں بڑا مقام حاصل کیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے