امریکی صدر نے فلسطین کو امریکہ کے حوالے کرنے کے حوالے سے بیان داغ کر پوری دنیا میں بے چینی پھیلا دی ہے۔ نیتن یاہو، نریندر مودی اور ڈولنڈ ٹرمپ کا اتحادِ ثلاثہ دنیا کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ اس اعلان کو عرب دنیا کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا نے بھی مسترد کر دیا ہے۔
اسرائیل ڈولنڈ ٹرمپ کی تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے کہ اس نے ایک انتہائی اہم تجویز دے کر امن کی راہیں کشادہ کر دی ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی نقلِ مکانی کے لیے انتظامات شروع کر دیے ہیں، تا کہ اس کارِ خیر کو احسن طریقے سے سر انجام دیا جاسکے۔
اس سے قبل بھی دنیا نے یاسرعرفات کو مع اپنے جاں نثاروں کے فلسطین سے جَلا وطن ہوتے دیکھا تھا۔ لہٰذا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی امریکی عزائم میں مزاحم ہوسکتا ہے، تو اس کے لیے تاریخ سے حقائق کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ عرب ریاستیں تو فلسطینیوں کے نام سے خائف رہتی ہیں۔ عرب ممالک میں فلسطینیوں کے لیے داخلہ ممنوع ہے۔ وہ کھلے عام فلسطین کی حمایت سے بھی گریزاں رہتے ہیں۔ مصر، اردن، شام اور خلیجی ریاستیں اس کا واضح اظہاریہ ہیں۔ ترکی، اسرائیل کے ساتھ بہترین سفارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے۔ مصر سے فلسطینیوں کی دوستی اور نفرت اپنی ہی نوعیت کی ہے۔ ایک زمانہ میں جمال عبدالنا صر کے دورِ اقتدار میں مصر ان کا اپنا دوسرا گھر کہلاتا تھا، لیکن اب مصر میں ان کا داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔
بات کو واضح کرنے کے لیے ہمیں افغانستان کے مسئلہ کی نوعیت کوپیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں 35 لاکھ افغانی ہمارے مہمان تھے اور ان کے لیے ہم نے خزانوں کے منھ کھول دیے تھے، لیکن اب حالت یہ ہے کہ پاکستانی حکومت، افغانیوں کو پکڑ پکڑ کر سرحد پار بھیج رہی ہے۔ کل کے مجاہدین آج کے دہشت گر قرار پا رہے ہیں۔ محبت، نفرت میں بدل چکی ہے۔ حالاں کہ افغانی ہمارے ہمسائے ہیں اور ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ ان کے بغیر پاکستان میں امن کا قیام ناممکن ہے۔ جب تک افغانستان اور پاکستان میں معمول کے تعلقات قائم نہیں ہوتے اور اور ایک دوسرے کا اعتماد نہیں جیتتے، ہمارے لیے سیاسی استحکام کا حصول ناممکن ہے۔ آج کل پورا پاکستان دھماکوں اور خودکش حملوں کی زد میں ہے اور ایسا کرنے والے افغانی ہیں۔ علامہ اقبال نے 1930ء میں ایک انتہائی اہم پیش گوئی کی تھی:
آسیا یک پیکرِ آ ب و گِل است
ملتِ افغان در آں پیکردل است
از فسادِ او فسادِ اآسیا
در کشادِ او کشادِ آسیا
یعنی ا فغانستان ایشیا کا دل ہے اور اس دل میں سکون سے ایشیا کا امن و سکون منسلک ہے۔
ہمیں ہزار ہا جوانوں کی قربانیوں کو پیشِ نظر رکھ کر اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔ کمال ہے کہ ہم پھر بھی شاعرِ مشرق کی پیش گوئی سے کوئی سبق نہیں سیکھ رہے۔ ہمارا ہدف افغانیوں کے ساتھ مخاصمت ہے، جب کہ اُنھیں گلے لگانے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کا دباو اپنی جگہ، لیکن قومی یک جہتی اور اس کی پکار اپنی جگہ مسلم ہے۔ ہمیں افغانستان سے اپنے تعلقات کو از سرِ نو تشکیل دینا ہوگا۔ امریکہ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھا ہوا ہے اور کوئی بھی اس کے سامنے کھڑا ہونے کے لیے تیار نہیں۔ اخباری بیانات اپنی جگہ، لیکن عملی طور پر کوئی بھی سامنے آنے کے لیے تیار نہیں۔ چین اور روس ابھی تک امریکہ کو چیلنج کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھا رہے ہیں، لیکن امریکی قوت کا سامنا ان کے لیے بھی ممکن نہیں۔ ایران نے کچھ جذباتی بیانات سے امریکہ کو چیلنج کرنے کی جرات کا اظہار کیا، تو پھر جو کچھ ہوا سب پر عیاں ہے۔ سپر پاور کی مسند یکایک مقدر نہیں بنتی، بل کہ تاریخ خود بہ خود خلا کو پُر کرتی ہے۔ کبھی برطانیہ سپر پاؤر تھا، لیکن اَب وہ ایک چھوٹے سے جزیرے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ عظیم رومن ایمپائر اور سلطنتِ عثمانیہ اب کتابوں کی زینت ہیں۔ سکندرِ اعظم کا یونان فلسفے اور عظیم ادب کی وجہ سے اب بھی اہلِ علم کے دلوں میں زندہ ہے، لیکن یونان اب ایک چھوٹا سا جزیرہ بن کر رہ چکا ہے، جس کی عالمی معاملات میں کوئی اہمیت نہیں۔ ملکہ ازبیلہ کے دورِ حکومت میں سپین کا ڈنکا بجتا تھا، لیکن اب وہ تنہائی کا شکار ہے۔ امریکہ دریافت کرنے والا کولمبس بھی سپین کی سرپرستی میں نکلا تھا۔ سائرسِ اعظم، تیمور لنگ، نپولین بونا پارٹ اور اور منگولوں کے بے رحم اقتدار نے بھی دنیا کو اپنی مٹھی میں دبوچا ہوا تھا، لیکن سب نذرِ خاک ہوگئے۔ یہ سپر پاؤر کا تاج ایسے ہی گردش کرتا رہتا ہے اور یہ اُسی کے سر پر سجتا ہے، جو جرات مندی سے آگے بڑھ کر اسے اٹھا لیتا ہے۔
روسی سپرمیسی کو زمین بوس کرنے کے بعد اب امریکہ کی پوری توجہ چین پر مرکوز ہے۔ روسی تو سیع پسندی کو روکنے کے لیے امریکہ نے روس کے خلاف یوکرائن کو ہر طرح کی فوجی امداد مہیا کی۔ روس تو اپنے تئیں چند دنوں میں یوکرائن کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا، لیکن امریکہ کی بر وقت مداخلت نے اس کے سارے خوابوں پر اُوس گرا دی۔ روس کو دو سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے، لیکن یوکرائن کی علاقائی سالمیت روسی تسلط سے بالکل آزاد ہے۔ روس کو اس جنگ نے مالی اور تجارتی نقصانات سے ہم کنار کیا ہے، جس سے وہ اس کرۂ ارض پر دوسرے اہم مقامات پر پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ شام کا محاذ بھی روس کے لیے بری خبریں لے کر آیا ہے۔ بشارا لاسد کا شام سے فرار روسی شکست کا منظر پیش کر رہا ہے۔ بشار الاسد روس میں سیاسی پناہ لیے ہوئے ہے اور شام اس کے مخالفین کے قبضے میں جا چکا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری فتح کے ڈنکے بجا رہے ہیں، جب کہ روس اپنی شکست سے انتہائی مایوس ہے اور اپنی کم ہمتی پر آگ بہ گولا ہو رہا ہے۔ عرب اسرائیلی جنگ میں بھی روس کا کوئی قابلِ ذکر کردار نہیں۔ اخباری بیانات کی حد تک تو اس کی موجودگی ضرور ہے، لیکن عملی طور پر اس کا کہیں کوئی وجود نہیں۔ چین تو ابھی عالمی معاملات میں نو وارد ہے۔ اس لیے دور ہی سے سارا تماشا دیکھ رہا ہے۔ وہ امریکہ کو تجارتی محاذ پر سخت مسابقت دے رہا ہے اور دھیرے دھیرے اپنی جگہ بنا رہا ہے، لیکن امریکہ کو کھلے میدان میں چیلنج کرنا ابھی اس کے لیے بہت دور ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس ساری صورتِ حال سے بہ خوبی آگاہ ہے۔ اسی لیے چین کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ بھارت، جاپان، اسٹریلیا اور یورپ اس معاملے پر امریکہ کے ساتھ ہیں۔ چین کی تجارتی محاذ پر کام یابی امریکی سپر میسی کو زمین بوس کرسکتی ہے۔ اس لیے امریکہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔ وہ سی پیک کو ’’پیک‘‘ دیکھنا چاہتا ہے، جس کے لیے اس نے بھارت کو میدان میں اُتارا ہوا ہے۔
دوسری طرف پاکستان خاموشی سے یہ سارا تماشا دیکھ رہا ہے، لیکن منھ سے کچھ نہیں بول رہا۔ کیوں کہ وہ امریکہ کے سامنے بے بس ہے۔ ڈولنڈ ٹرمپ نے جس طرح 16 ماہ سے جاری عرب اسرائیل جنگ کو رُکوایا، اس سے روس کو مڈل ایسٹ سے بھی بے دخل ہونا پڑگیا۔ یہ سچ ہے کہ ڈولنڈ ٹرمپ پرانی امریکی پالیسی کو ترک کرنا چاہتے ہیں، جس میں امریکی سرمایہ دوسری اقوام پر صرف ہوتا ہے۔ چودھراہٹ کے لیے کچھ قربانی تو دینا پڑتی ہے، لیکن شاید امریکہ اب ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے، جس میں چوہدراہٹ بغیر کچھ خرچ کیے حاصل کرنا چاہتا ہے، جو کہ انتہائی مشکل ہے۔ چین اپنی دولت پوری دنیا میں تقسیم کر رہا ہے تبھی تو عالمی منظر نامے میں اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ایک جنگ سرِ عام جاری ہے جس کا نقطۂ ماسکہ یہ ہے کہ دنیا کی اگلی چودھراہٹ کی مسند کس کے ہاتھ آئے گی؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
