قارئین! پچھلے ہفتے یہ خبر آپ نے پڑھی یا سنی ہوگی کہ آئی ایم ایف وفد نے چیف جسٹس کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ اس ضمن میں عدالتِ عظمیٰ نے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا تھا۔ لہٰذا تکرارکی ضرورت نہیں۔
ساتھ میں ایک خبر اور بھی نشر ہوئی تھی، جو سپہ سالار سے منسوب تھی۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ سپہ سالار نے کہا ہے کہ ابھی مجھے کوئی خط ملا ہی نہیں اور اگر مل بھی جائے، تو اُس کو وزیرِ اعظم کو ارسال کیا جائے گا۔
مذکورہ خبر میں خط سے مراد وہ ’’مبینہ خطوط‘‘ ہیں، جو دارالحکومت کی قید میں بند سابق وزیرِاعظم نے لکھے ہیں۔ تقریباً تینوں کے تینوں خطوط میڈیا کی زینت بن چکے ہیں، جو ابھی تک چند کلومیٹرکے فاصلے پر موجود منزلِ مقصود پر نہیں پہنچ پائے۔
یہ بھی قابلِ تحقیق بات ہے کہ آیا یہ خطوط مطلوبہ پتے پر ارسال بھی کیے گئے ہیں، یا صرف ’’سیاست‘‘ کرنے کے لیے جتن کیے جا رہے ہیں؟ بہ ہرحال ایسی خبروں سے ملکی میڈیا اَٹا پڑا ہے۔
اس کے بعد ایک ایسی تصویر بھی سامنے آئی جس میں وزیرِاعظم اور ملکی سپہ سالار غیر ملکی صدر مہمان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حکومت مخالف سیاسی کارکنان نے اس تصویر پر جو تبصرے کیے ہیں، اُن میں سے اکثریت کا مطلب یہی ہے کہ ’’تصویر ہی بتاتی ہے کہ ’اصلی حکم ران‘ کون ہے؟‘‘ باقی وہ تبصرے ناقابلِ اشاعت ہیں۔ کیوں کہ ’’پیکا‘‘ نامی جو قانون حال ہی میں ترامیم کے ساتھ نافذ العمل ہوا ہے، اُس کے بعد منھ پر تالا ہی مناسب ہے…… اور مقتدرہ کی ہر بات پر ’’واہ واہ‘‘ کرنے کے علاوہ تخریبی تو رکھ چھوڑیں، تعمیری تنقیدکی بھی گنجایش باقی نہیں۔
یوں آغاز میں جن دو خبروں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ بھی بوسیدہ خبریں ہی ہیں۔ کیوں کہ ’’پیکا قانون‘‘ کے بعد ان پر تجزیے کرکے کوئی مفت میں کیوں مصیبت کو دعوت دے!
بہ ہر حال عادت سے مجبور لکھاریوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ قلم کی حرمت کو برقراررکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور سپردِ قلم کرتے ہیں۔ سو اِسی رسم کو نبھانے کے لیے ہم بھی عرض کردیتے ہیں کہ آئی ایم ایف وفد کے سامنے اگر ملک کا منصفِ اعلا وضاحتیں پیش کرنے بیٹھ جائے، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قومی حمیت، عدالتی آزادی اور ریاستی خود مختاری کس حد تک سوالیہ ہے؟ بس اسی پر اکتفا کیجیے۔
دوسری خبر پر بھی اتنا ہی کَہ سکتے ہیں کہ جب چند سال قبل جانے والے سپہ سالار نے کہا تھا کہ ہمارا اب سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، تو پھر سوال یہ ضرور بنتا ہے کہ ایک سپہ سالار کیوں کر مجبور ہوا کہ کسی سیاست دان کے لکھے ہوئے خط بارے کسی سوال کا جواب دے؟ سیاست سے دوری ہی اس ادارے کی ساکھ کے لیے بہتر ہے۔ وگرنہ جو زبانِ خلق پر ہے، وہی نقارۂ خدا ہے۔
قارئین! ’’پیکا قانون‘‘ ایک طوق ہے، جو آزاد صحافت کے گلے میں ڈالنا مقصود ہے، مگر سوال یہ ہے کہ بیرونِ ملک جو اس سرزمین کے لوگ آباد ہیں، جن کے ہاتھوں میں سوشل میڈیا جیسا دو دھاری تلوار موجود ہے، اُن کی زد سے حکومت خود کو بچا پائے گی؟
دنیا کے سامنے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی 15 سالہ آمریت ختم ہوئی، تو اُس آمریت کی خفیہ جیلوں کے دروازے کھولے گئے اور ظلم و جبر کی ایسی داستانیں سامنے آئیں کہ جنھیں بیان کرنے کے لیے بھی چیتے کا جگر چاہیے۔
اب بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے ہم نوا جان بچانے کے لیے جگہ ڈھونڈ رہے ہیں، جب کہ عوام ہیں کہ ظلم و جبر کے ہر نشان کو مٹانے کے لیے کمر بستہ ہیں۔
خاکم بہ دہن، مَیں یہ نہیں کَہ رہا کہ یہاں بھی ویسے ہی حالات ہیں، مگر روز روز کی بندشوں سے کیا تاثربنتا ہے؟ کون سی پابندیاں ہیں جو یہاں نہیں لگائی گئیں؟ اب ایسے میں کوئی کالم نگار لکھے، تو کیا لکھے……! شاہ کے مصاحب کچھ قلم بردار ضرور خوش ہیں کہ ان کا رزق شاہ کے لیے ’’واہ،واہ‘‘ کرنے ہی سے نتھی ہے…… مگر عوام کی اکثریت اور آزاد صحافت کے مزدور جو ایک خوش حال اور پُرامن ملک کے باسی رہنا چاہتے ہیں، وہ کیسے اس گھٹن میں خود کو پُرسکون رکھ سکتے ہیں؟
کسی نے پوچھا کہ میڈیا کیوں خاموش ہے؟ عرض کیا، میڈیا خاموش ہے یا مجبور…… صحافی بکا ہوا ہے، یا سہما ہوا……؟
اس کا فیصلہ تو وقت فیصلہ کرے گا، لیکن کتنے عام لوگ ہیں جو ظلم کو ظلم کہنے کے لیے تیار ہیں……؟
کہنے کو تو کچھ بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن میدانِ عمل میں حالات کا دھارا بدلنا محنت طلب کام ہے، اور محنت سے جی چرانے میں ہم سب سے آگے ہیں۔
رہے نام اللہ کا……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
