میری طرح 80ء کی دہائی میں آنکھ کھولنے والوں کو ملاکنڈ ٹنل کی سحر انگیزی کا اندازہ بہ خوبی ہوگا۔ مَیں چوں کہ ’’ٹریول سِکنس‘‘ (Travel Sickess) سے متاثر ہوں، سفر کے دوران میں اُلٹی نہ کروں، تو دل کا بوجھ ہلکا نہیں ہوتا۔ اس لیے جب بچپن میں ’’جی ٹی ایس بس‘‘ کے ذریعے پشاور اپنے چھوٹے دادا (دادا ’’حاجی محمد المعروف بزوگر‘‘ کے چھوٹے بھائی ’’احمد بابا‘‘ جنھیں ہم چھوٹے بڑے سبھی ’’ترہ دادا‘‘ پکارا کرتے تھے ) کے ہاں جایا کرتے، تو گاڑی چڑھتے ہی مجھے ’’گریوی نیٹ‘‘ ٹائپ دوا کھلائی جاتی اور آنکھ لگتے ہی مَیں پریوں کے دیس میں خود کو پاتا۔
آنکھ لگنے سے پہلے ’’ابئ‘‘ (دادی) سے میری خصوصی درخواست ہوتی کہ ملاکنڈ ٹنل پہنچتے ہی مجھے جگا دینا۔ جیسے ہی مذکورہ مقام آتا، ابئ پُکارتیں:’’پاسہ الکہ د ملاکنڈ سُرے راغے۔‘‘یعنی اُٹھو لڑکے ملاکنڈ سرنگ آگئی۔
بَس (Bus) لمحوں کے حساب سے ٹنل کراس کرجاتی۔ بسا اوقات آنکھ کھلتے کھلتے بَس آدھی سرنگ کراس بھی کرچکی ہوتی…… پھر بھی ہماری خوشی کی انتہا نہ ہوتی۔ مذکورہ چند لمحے ہم جیسوں کے لیے حاصلِ سفر ہوا کرتے۔
آج جب بھی اس مقام سے گزرتا ہوں، تو نہ چاہتے ہوئے آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ کیوں کہ اَب اِس راستے سے ہم سفر نہیں کرتے۔ اَب دادا ہی رہے، نہ ’’ترہ دادا‘‘، دادی رہی اور نہ وہ بچپن ہی رہا۔
سدرشن فاکر کے بہ قول:
یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی
’’جی ٹی ایس بَس‘‘ سے بھی کئی یادیں وابستہ ہیں۔ آج جہاں گراسی گراؤنڈ سے ملحق کئی منزلہ’’سلطان ٹاؤر‘‘ قائم ہے، ٹھیک اُس جگہ پر جی ٹی ایس بسوں کا ایک بڑا اڈّا قائم تھا۔ ذہن پر زور ڈالتا ہوں، تو کوندا سا لپکتا ہے اور کسی فلمی سین کی طرح آنکھوں کے سامنے سروس سٹیشن کا دھندلا سا منظر وجود پاتا ہے۔ سینئر صحافی فیاض ظفر بھی اس جگہ جی ٹی ایس اڈّے اور سروس سٹیشن ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ نیز کہتے ہیں: ’’سیدو شریف میں جہاں آج سمز ہسپتال قائم ہے، اُس دور میں مذکورہ عمارت سے ملحق جی ٹی ایس بسوں کے لیے ایک بڑا ورک شاپ بھی قائم تھا۔‘‘
جی ٹی ایس بسوں کا دور گزر گیا، تو سلطان ٹاؤر والی جگہ مرغزار/ اسلام پور اڈّے میں تبدیل ہوگئی۔ یہاں سے ’’ڈاٹسن‘‘ اور ’’ٹورسٹ‘‘ گاڑیاں (جنھیں ہم لڑکے بالے ’’ڈاکسن‘‘ اور ’’ٹورس‘‘ بولتے تھے) سواریاں اُٹھاتیں اور اُنھیں منزل پر پہنچا آتیں۔
(آج کی ’’تصویر کہانی‘‘ کا حصہ بننے والی یہ تصویر 25 مارچ 2021ء کو لی گئی تھی۔ اگر یہ اچھے ریزولوشن میں درکار ہو، تو ہمارے ایڈیٹر سے ان کے ای میل پتے amjadalisahaab@gmail.com پر رابطہ فرمائیں، شکریہ)
