ملاکنڈ کی ایک نام ور یونیورسٹی میں مبینہ طور پر ایک جنسی ہراسانی کا واقعہ سامنے آیا ہے، جس نے نہ صرف تعلیمی حلقوں، بل کہ پورے پختون معاشرے میں ایک ہل چل مچا دی ہے۔
اطلاعات کے مطابق، پاکستان اسٹڈیز کے ایک لیکچرار عبدالحسـیب خان، جو کہ ’’یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن‘‘ (MUTA) کے اطلاعاتی سیکرٹری بھی ہیں، پر بی ایس اُردو کی ایک طالبہ حراگل نے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق، لیکچرر مبینہ طور پر طالبہ کے گھر ہراسانی کے لیے پہنچا، جہاں اس کے مرد رشتہ داروں نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔
مزید یہ الزام بھی سامنے آیا ہے کہ ملزم کے موبائل میں 4 ہزار ایسی ویڈیوز موجود ہیں، جن میں طالبات کو اعلا نمبروں یا جی پی اے کے لالچ میں ہراساں کرنے کے شواہد ہوسکتے ہیں۔
یہ واقعہ 4 فروری 2025ء کو پیش آیا، مگر حیرت انگیز طور پر یہ مسئلہ دس بارہ دن بعد میڈیا پر آیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ معاملہ اتنا حساس تھا، تو اسے فوری طور پر کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ کیا اس تاخیر کے پیچھے کوئی ذاتی یا خاندانی رقابت تھی یا پھر یونیورسٹی انتظامیہ کی سست روی اس کی ذمے دار ہے؟ یونیورسٹی نے فوری طور پر لیکچرر کو معطل کر کے کیس سنڈیکیٹ کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے، جب کہ حکومت نے بھی دو رُکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی ہے، جو اعلا تعلیمی کمیشن اور وزیر اعلا کو رپورٹ پیش کرے گی۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں اس نوعیت کا اسکینڈل منظرِ عام پر آیا ہو۔ ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات ہوچکے ہیں، مگر آج تک نہ تو کوئی موثر پالیسی بن سکی، نہ تعلیمی ادارے میں ہراسانی روکنے کے لیے کوئی پیشگی اقدامات ہی کیے گئے۔
اس واقعے کے بعد سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ آیا جامعات میں اساتذہ کے ہاتھ میں موجود نمبر دینے کی طاقت ہی وہ بنیادی خرابی ہے، جس سے اس قسم کے واقعات جنم لیتے ہیں؟ کیا گریڈنگ سسٹم میں کوئی ایسی تبدیلی لائی جاسکتی ہے، جو طالبات کو استحصال سے بچا سکے؟
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر بغیر کسی تحقیق کے اچھالنا درست ہے؟
ایک ایسے معاشرے میں جہاں پہلے ہی لڑکیوں کی تعلیم کو مختلف بہانوں سے محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایسے الزامات کی آزادانہ تشہیر کیا والدین کو اپنی بیٹیوں کو اعلا تعلیم سے روکنے پر مجبور نہیں کرے گی؟
کیا یہ سچ نہیں کہ ہر بار جب کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے، تو مذہبی اور قدامت پسند حلقے فوراً جدید تعلیم کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں؟
کیا ایسے واقعات پر بغیر عدالتی تحقیقات کے ردِ عمل دینا معاشرتی بے چینی اور خواتین کے تعلیمی سفر کو مزید مشکلات میں ڈالنے کے مترادف نہیں؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پختون معاشرے میں خواتین کی تعلیم کا معاملہ پہلے ہی حساس ہے۔ ایسے میں اگر یہ معاملہ درست ثابت ہوتا ہے، تو کیا یونیورسٹی ایسے اساتذہ کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے کوئی سخت پالیسی بنا سکتی ہے؟
اور اگر یہ معاملہ غلط ثابت ہوتا ہے، تو کیا سوشل میڈیا پر کردار کشی کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟
یہ واقعہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آیا ہماری جامعات میں ایسا نظام موجود ہے جو ایسے مسائل کی قبل از وقت روک تھام کرسکے یا پھر ہم ہمیشہ کی طرح کسی نئے اسکینڈل کے انتظار میں رہیں گے؟
ہمیں بہ طورِ معاشرہ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم خواتین کی تعلیم کو محفوظ اور باعزت ماحول میں جاری رکھنا چاہتے ہیں، یا محض اسکینڈلز اور افواہوں کے سہارے ان کے تعلیمی راستے مسدود کرنے کا مرتکب ہوں گے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
