تباہ حال بلدیاتی نظام: وجوہات اور حل

Blogger Hilal Danish

بلدیاتی نظام کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے۔ جدید جمہوریتوں میں مقامی حکومتیں نہ صرف عوام کے بنیادی مسائل حل کرتی ہیں، بل کہ معاشی استحکام اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہیں…… مگر بدقسمتی سے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی نظام زبوں حالی کا شکار ہے۔ تین سال قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر اربوں روپے خرچ کیے گئے، لیکن آج بھی منتخب نمایندے بے اختیار، ادارے بے بس اور عوام بدحال ہیں۔
فنڈز کی عدم دست یابی، بیورو کریسی کی اجارہ داری اور حکومتی عدم توجہی نے اس نظام کو عملی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ اگر بروقت اصلاحات نہ کی گئیں، تو یہ صورتِ حال نہ صرف عوامی مسائل میں مزید اضافے کا سبب بنے گی، بل کہ صوبے کو شدید مالی بحران میں بھی مبتلا کر سکتی ہے۔
٭ بلدیاتی الیکشن: جمہوریت کی سب سے بڑی ناکامی:۔ دسمبر 2021ء اور مارچ 2022ء میں خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات منعقد کیے گئے، جو جمہوری عمل کے فروغ کے لیے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوسکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے، تین سال گزرنے کے باوجود یہ انتخابات محض ایک نمایشی عمل ثابت ہوئے۔ کیوں کہ نہ تو بلدیاتی نمایندوں کو اختیارات دیے گئے اور نہ انھیں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی مالی وسائل ہی فراہم کیے گئے۔
اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود، عوام کو عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ عوام کو امید تھی کہ بلدیاتی نمایندے ان کے بنیادی مسائل حل کریں گے، مگر جب اُنھیں معلوم ہوا کہ یہ نمایندے خود بے اختیار ہیں، تو اُن کا اعتماد اس پورے نظام پر سے اُٹھ گیا۔
٭ مالی بحران: بلدیاتی ادارے دیوالیہ ہونے کے قریب:۔ خیبر پختونخوا میں 131 تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشنز (TMAs) موجود ہیں، جن میں سے 80 فی صد شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔
اب آتے ہیں اس بحران کی بنیادی وجوہات کی طرف:
٭ پراونشل فنانس کمیشن (PFC) فنڈز کی معطلی:۔ بلدیاتی اداروں کے لیے ’’پی ایف سی فنڈز‘‘ بنیادی مالی ذریعہ ہوتے ہیں، لیکن گذشتہ تین سالوں سے یہ فنڈز روک دیے گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بلدیاتی اداروں کے پاس تنخواہوں کی ادائی تک کے وسائل نہیں بچے۔
٭ بیوروکریسی کی اجارہ داری:۔ بیوروکریسی بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کے بہ جائے ان کے وسائل اور اختیارات اپنے قابو میں رکھنا چاہتی ہے۔ ضلعی ایڈمنسٹریشن اور بیورو کریسی کی مداخلت نے بلدیاتی نمایندوں کو بے اثر کر دیا ہے۔
٭ فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم:۔ جو محدود فنڈز دست یاب ہیں، وہ بھی مخصوص اضلاع اور حکومتی اتحادیوں کو دیے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن کے زیرِ انتظام علاقوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جا رہا ہے، جس سے بلدیاتی نظام کی غیرجانب داری متاثر ہو رہی ہے۔
٭ ترقیاتی منصوبوں کی بندش:۔ نئے ترقیاتی منصوبے شروع ہونا تو درکنار، پرانے منصوبے بھی تعطل کا شکار ہیں۔ بنیادی انفراسٹرکچر کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور صفائی کا نظام مفلوج ہو چکا ہے۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ بلدیاتی اداروں کو کم زور کرنے کا ذمے دار کون ہے؟ تو بلدیاتی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے پیچھے دو حکومتیں برابر کی شریک ہیں:
٭ پی ٹی آئی کی سابق حکومت (محمود خان دور):۔ بلدیاتی نظام کی کم زوری کا آغاز سابق وزیرِاعلا محمود خان کے دور میں ہوا، جب منتخب نمایندوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ بلدیاتی اداروں کو دیے جانے والے فنڈز کو صوبائی سطح پر استعمال کیا گیا اور مقامی حکومتوں کو مالی مشکلات میں ڈال دیا گیا۔
٭ موجودہ حکومت (علی امین گنڈا پور دور):۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے بھی پچھلی حکومت کی پالیسی کو برقرار رکھا ہے۔ موجودہ مالی بحران کو جواز بناکر بلدیاتی اداروں کو فنڈز سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ حکومت کے پاس اپنے منصوبوں کے لیے وسائل موجود ہیں، مگر بلدیاتی اداروں کے لیے خزانہ خالی ہے۔ یہ صورتِ حال عوامی فلاح و بہبود کے خلاف ایک سنگین ناانصافی ہے۔ جب مقامی حکومتوں کو جان بوجھ کر کم زور کیا جائے گا، تو عوامی مسائل مزید بڑھیں گے اور صوبے کی ترقی کی راہ مسدود ہو جائے گی۔
٭ خیبر پختونخوا کو مالی تباہی سے بچانے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟:۔ اگر خیبر پختونخوا کو مالی بحران سے بچانا ہے اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنی ہیں، تو حکومت کو درجِ ذیل اقدامات فوری طور پر اٹھانا ہوں گے۔
٭ پراونشل فنانس کمیشن (پی ایف سی) فنڈز کی فوری بہ حالی:۔ بلدیاتی اداروں کو ان کا آئینی اور قانونی حق دیا جائے اور ’’پی ایف سی فنڈز‘‘ کی فوری ادائی کو یقینی بنایا جائے۔
٭ منتخب نمایندوں کو بااختیار بنایا جائے:۔ بیوروکریسی کی اجارہ داری ختم کر کے بلدیاتی نمایندوں کو بہ راہِ راست ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کا اختیار دیا جائے۔
٭ بلدیاتی اداروں کی خود مختاری یقینی بنائی جائے:۔ بلدیاتی اداروں کے مالی وسائل کو قانونی تحفظ دیا جائے، تاکہ وہ صوبائی حکومت کی مداخلت کے بغیر آزادانہ کام کرسکیں۔
٭ فنڈز کے اجرا میں شفافیت:۔ تمام فنڈز اور ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھی جائیں، تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہوسکے اور وسائل کا منصفانہ استعمال یقینی بنایا جاسکے۔
٭ ملازمین کی تنخواہوں کی فوری ادائی:۔ بلدیاتی اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں روکنا ایک غیر انسانی اقدام ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ان کے مالی مسائل حل کرے، تاکہ یہ ادارے دوبارہ فعال ہوسکیں۔
٭ مضبوط بلدیاتی نظام ہی ترقی کا واحد راستہ:۔ اگر خیبر پختونخوا کو ترقی کی راہ پر گام زن کرنا ہے، اور عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے ہیں، تو بلدیاتی اداروں کی بہ حالی اور خود مختاری ناگزیر ہے۔ ایک مضبوط، خود مختار اور فعال بلدیاتی نظام ہی وہ بنیاد فراہم کرسکتا ہے، جس پر ایک مستحکم اور خوش حال خیبر پختونخوا تعمیر ہوسکتا ہے۔
حکومت کو فوری طور پر اس مسئلے کا سنجیدہ نوٹس لینا ہوگا۔ کیوں کہ اگر مقامی حکومتیں مضبوط ہوں گی، تو خیبر پختونخوا ترقی کرے گا اور اگر یہ نظام مفلوج رہا، تو صوبے کا معاشی مستقبل تاریک ہو جائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے