عمران خان کا سیاسی کیریئر (اجمالی جائزہ)

Blogger Doctor Gohar Ali

1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ میں تاریخی کام یابی کے بعد عمران خان نے خیبر پختونخوا (جو اُس وقت صوبہ سرحد کہلاتا تھا) کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ اس دوران میں وہ اکثر روایتی پشتون لباس اور بندوق کے ساتھ تصاویر میں نظر آتے، جو اُن کے عوامی اور ثقافتی تعلقات کو ظاہر کرتا تھا۔ 1996ء میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھنے کے بعد عمران خان نے پہلی بار اَپر سوات کا دورہ کیا۔ اُس دورے میں اُنھوں نے مقامی خوانین سے ملاقات کی اور اُنھیں اپنے نظریات سے آگاہ کیا۔ سوات کے مختلف علاقوں میں مقامی سطح پر کرکٹ ٹورنامنٹس کا افتتاح بھی کیا، جو نوجوانوں میں اُن کی مقبولیت کا باعث بنا۔
٭ 1997ء کے انتخابات میں عمران خان کا کردار:۔ 1997ء کے عام انتخابات میں عمران خان نے پورے پاکستان میں 8 قومی اسمبلی کی نشستوں سے انتخاب لڑا۔ اُن کا انتخابی نشان ’’چراغ‘‘ تھا۔ اگرچہ کراچی، لاہور اور ڈیرہ اسماعیل خان جیسے علاقوں میں اُنھیں قابلِ ذکر کام یابی نہ ملی، تاہم میانوالی اور سوات میں اُن کی کارکردگی توقع سے بہتر رہی۔
لاہور کے حلقہ این اے 95 میں نواز شریف کے 50 ہزار ووٹ کے مقابلے میں عمران خان نے محض 5,365 ووٹ حاصل کیے، جب کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں وہ صرف 6,001 ووٹ لے سکے۔ تاہم، میانوالی کے حلقہ این اے 53 سے اُنھوں نے 17,859 ووٹ لے کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔
سوات کے حلقہ این اے 21 میں عمران خان نے میاں گل اورنگزیب کے 25,018 ووٹ کے مقابلے میں 10,716 ووٹ حاصل کیے اور یہاں بھی تیسرے ہی نمبر پر رہے۔ سوات سے حاصل ہونے والے ان غیر متوقع ووٹوں نے اُنھیں اس علاقے پر مزید توجہ دینے کی ترغیب دی۔
٭ عمران خان کا سوات سے تعلق مضبوط ہونا:۔ سوات میں اپنی مقبولیت کو مزید بڑھانے کے لیے عمران خان نے 1998ء میں اس علاقے کے مختلف دورے کیے۔ اگست 1998ء میں وہ گراسی گراؤنڈ اور مٹہ گراؤنڈ میں فٹ بال ٹورنامنٹس کے مہمانِ خصوصی بنے۔ اُن دوروں کے ذریعے وہ نوجوانوں کے قریب آئے اور اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
سوات میں عمران خان کی توجہ نوجوانوں کو اپنی طرف کرانے اور علاقے کی مقامی روایات سے ہم آہنگ ہونے کی اُن کی حکمتِ عملی کا حصہ تھی، جس نے بعد میں اُن کی پارٹی کے لیے خیبر پختونخوا میں مضبوط بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
جیسا کہ پہلی قسط میں ذکر کیا گیا تھا کہ عمران خان نے 1997ء کے عام انتخابات میں بغیر منظم انتخابی مہم اور چند پولنگ اسٹیشنوں پر بغیر پولنگ ایجنٹس کے 10 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے، جو اُن کے سیاسی کیریئر کے لیے نیک شگون تھا۔
عمران خان کا تیسرے نمبر پر آنا سوات میں ممکنہ عوامی حمایت کا اشارہ تھا۔ سوات میں اپنی سیاسی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے عمران خان نے بارہا دورے کیے اور خصوصی طور پر نوجوانوں، خاص طور پر کھیلوں سے وابستہ طبقے کو متحرک کرنے کی کوشش کی۔
٭ 1998ء کا دورہ،ایک منفرد تاثر:۔ اگست 1998ء میں عمران خان نے بغیر پروٹوکول اور سیکورٹی کے گراسی گراؤنڈ کا دورہ کیا، جہاں وہ روایتی پشتون لباس (یعنی شلوار قمیص) پشاوری چپل اور پکول میں نظر آئے۔ اُن کا یہ سادہ اور دل کش انداز نوجوانوں کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑنے میں کام یاب رہا۔
٭ 2002ء کے انتخابات، ابتدائی جد و جہد:۔ 2002ء کے عام انتخابات تک عمران خان نے اپنی جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، کو منظم کرنے اور اپنے نظریات کی ترویج میں بھرپور کوشش کی۔ تاہم، سوات میں عوامی حمایت محدود رہی۔ اس کی ایک وجہ اَپر سوات میں خان اِزم کا غلبہ تھا، جہاں بڑے زمین دار طبقات پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جیسی جماعتوں سے منسلک تھے، جب کہ لوئر سوات میں والی خاندان، مذہبی جماعتوں اور قوم پرست عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا اثر نمایاں تھا۔
عمران خان نے روایتی سیاسی ڈھانچے سے ہٹ کر متوسط طبقے، خاص طور پر تعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد جیسے یونیورسٹی کے پروفیسروں اور ریٹائرڈ اسکول پرنسپلوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا اور اُنھیں انتخابی ٹکٹ دیے۔ سوات کی صوبائی اسمبلی کی 7 نشستوں میں سے پی ٹی آئی نے 4 حلقوں (بریکوٹ، بابوزئی، کبل اور مٹہ) سے اپنے اُمیدوار کھڑے کیے، جب کہ دیگر 3 حلقوں (چارباغ، خوازہ خیلہ اور مدین) میں کسی امیدوار کو نام زد نہیں کیا۔
٭ نتائج اور وجوہات:۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹوں کی کم تعداد ملی، جس کی تفصیل درجِ ذیل ہے:
٭ پی کے 81 میں عنایت اللہ نے 17 سو ووٹ حاصل کیے۔
٭ پی کے 80 میں شیر افگن کاکا نے 14 سو ووٹ حاصل کیے۔
٭ پی کے 82 میں شوکت حیات نے 11 سو ووٹ حاصل کیے۔
٭ پی کے 8 4میں حنیفہ نے صرف 251 ووٹ حاصل کیے۔
ناکامی کی بڑی وجوہات میں تنظیمی کم زوری، ایم ایم اے (مذہبی جماعتوں کا اتحاد) کی مقبولیت اور ’’نائن الیون‘‘ (9/11) کے بعد خطے کی جیوپولی ٹیکل صورتِ حال شامل تھی۔ خاص طور پر افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے نے خطے میں ’’اینٹی امریکن‘‘ جذبات کو تقویت دی، جس کا فائدہ مذہبی جماعتوں نے اُٹھایا۔
٭ 2002ء کے بعد، ایک اہم سنگ میل:۔ اگرچہ سوات میں ناکامی ہوئی، لیکن 2002ء کے انتخابات پی ٹی آئی کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوئے۔ عمران خان نے میانوالی کے حلقہ این اے 71 سے 66,737 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی نشست جیتی۔ پارلیمنٹ میں شمولیت کے بعد عمران خان نے کرپٹ سیاسی نظام اور اشرافیہ پر کڑی تنقید کی۔ اُنھوں نے کرپشن کے خاتمے، آزاد خارجہ پالیسی، تعلیم و صحت میں بہتری اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف آواز بلند کی۔
٭ 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ:۔ 2008ء کے انتخابات میں عمران خان نے حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اُن کی عوامی مقبولیت اُس وقت مزید بڑھی، جب اُنھوں نے ڈرون حملوں اور پشتون علاقوں میں فوجی آپریشنوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ اُن کے اس جرات مندانہ موقف نے اُنھیں عوامی سطح پر مزید پذیرائی بخشی اور اُن کے سیاسی کیریئر کے لیے بنیاد مضبوط کی۔
2008ء سے 2013ء تک کا عرصہ سوات کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دوران میں طالبان کی حکم رانی، اُن کے خلاف عسکری آپریشن اور علاقے میں بدامنی کے باعث سیاسی، سماجی، جغرافیائی اور معاشی حالات میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔
٭ طالبان کے اثرات اور ابتدائی سیاسی منظرنامہ:۔ ’’نائن الیون‘‘ (9/11) کے بعد سوات کے سیاسی حالات کا جائزہ لیں، تو ایک غیرمعمولی صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا (اُس وقت صوبہ سرحد) میں ’’متحدہ مجلسِ عمل‘‘ (ایم ایم اے) نے تاریخی کام یابی حاصل کی اور سوات سمیت صوبے بھر میں کلین سویپ کرتے ہوئے حکومت قائم کی۔ ابتدائی طور پر ایم ایم اے اور ’’تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی‘‘ (ٹی این ایس ایم) کے مابین شریعت کے نفاذ کے لیے تعاون جاری رہا۔
ایم ایم اے، پارلیمنٹ کے ذریعے شریعت لاگو کرنا چاہتی تھی، جب کہ ’’فضل اللہ گروپ‘‘ جمہوریت، پارلیمنٹ اور ووٹ کو کفر قرار دیتا تھا۔ 2006ء کے بعد فضل اللہ نے عوامی حمایت حاصل کی اور لال مسجد واقعے (جولائی 2007ء) کے بعد حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھائے، جس کے نتیجے میں ایم ایم اے اور فضل اللہ گروپ میں دوریاں پیدا ہوئیں۔
٭ عسکری آپریشن اور عوامی ردِ عمل:۔ فضل اللہ کے خلاف 2007ء کے آخر میں ’’آپریشن راہِ حق‘‘ کے نام سے فوجی کارروائی کا آغاز ہوا، جس سے علاقے میں جانی و مالی نقصان ہوا۔ عوام ایک طرح سے سول اور فوجی قیادتوں سے بدظن ہوگئے۔ 2008ء کے انتخابات میں ایم ایم اے تحلیل ہوگئی، جب کہ ’’عوامی نیشنل پارٹی‘‘ (اے این پی) نے ’’امن‘‘ کے نعرے کے ساتھ نمایاں کام یابی حاصل کی۔
اے این پی کی حکومت نے اپریل اور مئی 2008ء میں بالترتیب ٹی این ایس ایم اور فضل اللہ گروپ کے ساتھ معاہدے کیے، جو جلد ہی ناکام ہوگئے۔ نتیجتاً 2008ء کے آخر تک علاقے میں شدت پسندی اور آپریشن دونوں جاری رہے، جس نے سوات کے عوام کو شدید نقصان پہنچایا۔
٭ شرعی نظامِ عدل ریگولیشن اور آپریشن راہِ راست:۔ فروری 2009ء میں اے این پی نے ’’شرعی نظامِ عدل ریگولیشن 2009ء‘‘ کے ذریعے وقتی امن قائم کیا، لیکن اپریل 2009ء میں طالبان کی بونیر کی طرف پیش قدمی نے حالات مزید خراب کر دیے۔ مئی 2009ء میں آپریشن راہِ راست کا آغاز کیا گیا، جس میں سوات کے اکثر شہریوں کو بے گھر ہونا پڑا۔ تقریباً ڈھائی مہینوں کے بعد حالات معمول پر آنا شروع ہوئے اور بے گھر افراد کی واپسی ہوئی۔ اس دوران میں طالبان کے خاتمے کے لیے ’’ویلج ڈیفنس کمیٹیز‘‘ بھی تشکیل دی گئیں، لیکن اُن کمیٹیوں کے اقدامات طالبان کے اثرات کو ختم نہ کرسکے۔
٭ تحریکِ انصاف کی مقبولیت میں اضافہ:۔2010ء کے ’’سپر فلڈ‘‘ کے بعد اے این پی حکومت پر تنقید میں شدت آئی۔ عمران خان کی تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے اس موقع کا بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ عمران خان کے بیانات، جن میں وہ ملٹری آپریشنوں کو شدت پسندی کی جڑ قرار دیتے تھے، نوجوانوں میں مقبول ہوئے۔ بیرونِ ملک مقیم سواتیوں نے بھی مالی اور سیاسی حمایت فراہم کی، جس نے پی ٹی آئی کے سیاسی بیانیے کو تقویت دی۔
فروری 2010ء میں ’’پی کے 83‘‘ کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے اُمیدوار شیر خان کی دوسری پوزیشن نے پارٹی کے سیاسی اثر و رسوخ کو مزید مستحکم کیا۔
٭ 2013ء کے عام انتخابات اور سوات میں پی ٹی آئی کی فتح:۔2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے ’’نیا پاکستان‘‘ اور ’’سونامی‘‘ جیسے نعروں کے ذریعے عوام کو اپنی طرف مائل کیا۔ اے این پی حکومت کی کرپشن کے الزامات اور علاقے میں لوڈشیڈنگ نے بھی عوام کو مایوس کیا۔ نتیجتاً، پی ٹی آئی نے سوات میں سات میں سے پانچ صوبائی اور دو قومی اسمبلی کی نشستیں جیت کر تاریخی کام یابی حاصل کی۔
٭ غور و فکر کے لیے سوالات:۔
1:۔ کیا پی ٹی آئی سوات میں کلین سویپ کے بعد عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرپائی؟
2:۔ پی ٹی آئی کے پہلے دورِ حکومت میں ایسے کون سے اقدامات کیے گئے جنھوں نے ریاست کے لیے پائیدار ترقی کی راہ ہم وار کی؟
قارئین! یہ سوالات عمران خان کی حکومت کے مستقبل کی سمت اور سوات میں عوامی توقعات کا جائزہ لینے کے لیے اہم ہیں۔
پی ٹی آئی نے 2013ء کے عام انتخابات میں ’’تبدیلی‘‘ اور ’’نیا پاکستان‘‘ جیسے پُرجوش نعروں کے ذریعے نوجوانوں اور روایتی سیاست دانوں سے مایوس عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا اور سوات جیسے علاقوں میں نمایاں کام یابی حاصل کی۔
عمران خان کی قیادت میں 2013ء سے 2018ء کے دوران میں پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا کو ایک ماڈل صوبے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور آیندہ انتخابات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
پی ٹی آئی حکومت نے خیبر پختونخوا میں مختلف شعبوں میں عوامی فلاح و بہبود اور گورننس کی بہتری کے لیے اہم اصلاحات متعارف کروائیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام سکولوں میں ’’ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم‘‘ متعارف کروایا گیا، تاکہ اساتذہ کی حاضری اور کارکردگی کو یقینی بنایا جاسکے۔ ساتھ ساتھ یک ساں نظامِ تعلیم پر زور دیا گیا، تاکہ تمام طبقات کو مساوی تعلیمی مواقع فراہم کیے جاسکیں۔
’’صحت انصاف کارڈ‘‘ کے ذریعے عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کی گئیں۔ دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی بھرتی اور صحت کے مراکز میں سہولیات کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی گئی۔
پولیس کو غیر سیاسی بنانے کی کوشش کی گئی، جس نے خیبر پختونخوا کی پولیس کو ایک ماڈل ادارہ بنایا۔
اسی طرح پٹواری سسٹم میں شفافیت لانے کے اقدامات کیے گئے، تاکہ عوام کو روزمرہ کے مسائل میں آسانی ہو۔
اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا گیا۔ دیہی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو ترجیح دی گئی، جس سے مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط ہوا۔
کرپشن کے خاتمے کے لیے احتساب کمیشن قائم کیا گیا۔ تاہم، اس ادارے کو متنازع فیصلوں اور عملی چیلنجوں کا سامنا بھی رہا۔
’’بلین ٹری سونامی‘‘ منصوبے کے تحت جنگلات کی بہ حالی اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے نمایاں اقدامات کیے گئے، جنھیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔
٭ دہشت گردی کے خلاف جنگ:۔ خیبر پختونخوا، خصوصاً سوات، دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل تھا۔ امن و امان کی بہ حالی کے لیے پی ٹی آئی حکومت کو اہم چیلنجوں کا سامنا رہا۔
2013ء میں مرکز میں نواز شریف اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی۔ تاہم، میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کے انتقال اور حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد فضل اللہ کے ’’تحریکِ طالبان پاکستان‘‘ (ٹی ٹی پی) کا سربراہ بننے سے مذاکراتی عمل معطل ہوگیا۔
2014ء میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا، جس نے وقتی طور پر طالبان کے نیٹ ورک کو کم زور کیا اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں مدد دی۔
دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کی منظوری دی گئی۔ اس پلان کے تحت طالبان کے خلاف کارروائیوں میں شدت آئی اور اُن کے نیٹ ورک کو ختم کرنے پر کام کیا گیا۔
نومبر 2016ء میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیرِ اعلا خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے سوات میں کنٹونمنٹ کا سنگِ بنیاد رکھا، جس کا مقصد علاقے میں مستقل بنیادوں پر امن کو یقینی بنانا تھا۔
طالبان نے 2014ء کے دوران میں سوات میں 23 سے زائد امن کمیٹیوں کے اراکین کو مبینہ طور پرنشانہ بنایا، جس سے مقامی آبادی میں خوف کی لہر پیدا ہوئی۔
٭ تجزیہ:۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے خیبر پختونخوا کو اصلاحات کے ذریعے ایک مثالی صوبہ بنانے کی کوشش کی، تاہم دہشت گردی کے خلاف اقدامات میں مسلسل چیلنجوں کا سامنا رہا۔ طالبان کی دوبارہ سر اُٹھانے کی کوششیں اور امن کمیٹی کے اراکین پر حملوں جیسے واقعات نے ظاہر کیا کہ امن و امان کی بہ حالی ایک پیچیدہ اور طویل المدتی عمل ہے۔
عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے عوامی خدمات اور اصلاحات کے ذریعے عوام کا اعتماد حاصل کیا۔ 2013ء سے 2018ء کے دوران میں ہونے والے اقدامات نے نہ صرف خیبر پختونخوا میں پارٹی کی مقبولیت کو بڑھایا، بل کہ 2018ء کے عام انتخابات میں پارٹی کی کام یابی کی بنیاد بھی رکھی۔
خیبرپختونخوا میں 5 سال کی کام یاب حکومت کے بعد، جہاں صحت، تعلیم اور پولیس کے نظام میں نمایاں اصلاحات کی گئیں، عمران خان نے ایک نئے وِژن اور منشور کے ساتھ 2018ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ اُن کے ایجنڈے میں کرپٹ سیاست دانوں سے نجات، ’’نئے پاکستان‘‘ کا تصور، یونیورسل ہیلتھ کیئر سسٹم، معیاری تعلیم کی فراہمی، بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرنا، مضبوط معیشت کی بنیاد رکھنا، احساس پروگرام کے ذریعے غربت کا خاتمہ اور آزاد و خودمختار خارجہ پالیسی جیسے اُمور شامل تھے۔
٭ 2018ء کے انتخابات اور ابتدائی کام یابیاں:۔ عمران خان نے خود کو کرپشن کے خلاف بے داغ اور شفاف قیادت کے طور پر پیش کیا۔ خاص طور پر پانامہ لیکس کیس کے بعد، جس میں نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے نے اُن کی مقبولیت میں اِضافہ کیا۔ یوتھ موبلائزیشن، موثر میڈیا حکمت عملی اور مذہبی و قوم پرستانہ جذبات کو اُبھارنے سے اُنھوں نے سیاسی برتری حاصل کی۔
جولائی 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے کام یابی حاصل کی اور مرکز کے ساتھ خیبر پختونخوا میں بھی حکومت بنائی۔ ابتدائی دِنوں میں اُن کی کفایت شعاری مہم اور وزیرِاعظم ہاؤس کے اخراجات کم کرنے جیسے اقدامات عوام میں مقبول ہوئے۔ کرتار پور راہ داری کا افتتاح اور افغان امن عمل میں سہولت کاری نے اُنھیں بین الاقوامی سطح پر پذیرائی دلائی۔ خصوصاً 2020ء میں طالبان اور امریکہ کے مابین دوحہ معاہدے میں اُن کے کردار نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مثبت تاثر دیا۔
٭ چیلنجز اور مشکلات:۔ عمران خان کی حکومت کو داخلی و خارجی سطح پر مختلف مشکلات کا سامنا رہا۔ روپے کی قدر میں کمی، مہنگائی، بے روزگاری اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر قرض لینے کے باعث معاشی بحران نے حکومت کی کارکردگی کو متاثر کیا۔ اپوزیشن نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت پر دباو بڑھایا، جب کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ اختلافات اور بیورو کریسی کے مسائل نے حکومت کی گورننس کو مزید کم زور کیا۔ ’’نیا پاکستان‘‘ کے وعدے اور کرپشن کے خاتمے کے دعوے پورے نہ ہونے کی وجہ سے عوامی توقعات کم ہوتی گئیں۔
٭ سوات اور طالبان کا مسئلہ:۔ 2022ء میں پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا حکومت کو اُس وقت شدید عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب طالبان دوبارہ سوات میں نمودار ہوئے۔ عوامی مظاہروں کے باوجود حکومت کی جانب سے موثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے امن معاہدوں کی پالیسی پر سوالات اُٹھے۔ یہ خیال پیدا ہوا کہ ماضی کے نرم رویے نے طالبان کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع دیا۔
٭ 9 مئی 2023ء کے واقعات اور اُن کے اثرات:۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے، جن میں حساس فوجی تنصیبات اور قومی یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ ریاست نے سخت ردِ عمل میں کریک ڈاؤن کرتے ہوئے کارکنوں اور رہ نماؤں کو گرفتار کیا، جس سے پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ تاہم، عمران خان نے اُن اقدامات کو ریاستی جبر اور انتقام قرار دیتے ہوئے عوامی ہم دردی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
٭ انتخابات 2024ء اور سیاسی بیانیہ:۔ 2024ء کے انتخابات سے پہلے، عمران خان نے ’’قیدی نمبر804‘‘ اور ’’کیا ہم کوئی غلام ہیں؟‘‘ جیسے بیانیے اپنائے۔ ان کی گرفتاری نے عوام میں جذباتی وابستگی بڑھائی، خاص طور پر بیرونِ ملک پاکستانیوں میں۔ مخالفین نے اُن کی پالیسیوں کو غیر سنجیدہ اور جذباتی قرار دیا، لیکن اُن کے حامیوں نے اُسے ایک مزاحمتی رہ نما کی حیثیت سے سراہا۔
٭ نتیجہ:۔ 2018ء سے 2024ء کے دوران میں عمران خان کے سیاسی کیریئر نے کئی اُتار چڑھاو دیکھے۔ اُن کی ابتدائی کام یابیاں، جیسے کفایت شعاری اور افغان امن معاہدے، اُنھیں ایک عالمی سطح کا رِہ نما بنانے میں معاون ثابت ہوئیں…… لیکن معاشی چیلنج، عوامی توقعات پوری نہ کرسکنے اور 9 مئی جیسے تنازعات نے ان کی حکومت اور پارٹی کو کم زور کیا۔ اس کے باوجود، عمران خان اپنی مزاحمتی سیاست اور کرپشن مخالف بیانیے کے ذریعے عوام میں ایک موثر رہ نما کے طور پر اپنی شناخت قائم رکھنے میں کام یاب رہے۔
 ……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے