ریاست کے حقیقی مالک کسی بھی ملک کے عوام ہو تے ہیں۔ لہٰذا آزاد، شفاف، غیر جانب دار،غیر متنازع، صاف اور دھاندلی سے پاک انتخابات کے بعد اقتدار عوام کے منتخب نمایندوں کو سونپ دیا جاتا ہے۔
ریاست کی سب سے اہم ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرے اور فرض کی بجا آوری میں رنگ، نسل، زبان اور مذہب کی کوئی تفریق نہ کرے۔
آئینِ پاکستان ایک معاہدہ ہوتا ہے جو عوام اور ریاست کے درمیان طے پاتا ہے اور جو منتخب نمایندوں کے ذریعے تشکیل پاتا ہے۔ کسی آمر کا بنایا ہوا دستور چوں کہ اُس کے ذاتی اقتدار کے گرد گھومتا ہے، لہٰذا عوام اُسے مسترد کر دیتے ہیں۔
آئین، عوامی خواہشات کا ترجمان ہوتا ہے، جسے اُس کی پارلیمان تخلیق کرتی ہے۔
آئین سے بغاوت کی سزا آرٹیکل چھے کے تحت ’’سزائے موت‘‘ ہے۔ لہٰذا آئین کی پاس داری ہر شہری پر لازم ہے۔ ذاتی حیثیت میں کوئی ممبر پارلیمان آئین پر اپنی رائے دے سکتا ہے، لیکن اُس کے کسی آرٹیکل کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرسکتا۔ پارلیمان کی اکثریت ہی آئین میں تبدیلی کا اختیار کھتی ہے اور سارے ادارے اس کی پیروی کے پابند ہو تے ہیں۔
پاکستان کا آئین چوں کہ پارلیمانی ہے، لہٰذا اس میں وزیرِ اعظم ریاست کو چلانے کا مکمل اختیار رکھتا ہے، لیکن اُسے بھی آئین کے سامنے جواب دہ ہونا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں طالع آزمائی کے مظاہرے بہت ہوئے اور آئین کو کئی دفعہ پاؤں تلے روندا گیا۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب ایک ڈکٹیٹر نے آئین کو چند صفحات کی ایسی کتاب کہا، جسے وہ کسی بھی وقت پھاڑ سکتا ہے۔
عوام کی جمہوریت سے وابستگی اور جد و جہد کے نتیجے میں آمریت کا مقدرہمیشہ ہار بنی اور آخری جیت آئین ہی کا مقدر بنی۔ کیوں کہ مہذب دنیا میں آئین و قانون کے بغیر امورِ ریاست سر انجام نہیں دیے جاسکتے۔
پاکستان میں جمہوریت اپنی اصلی اور حقیقی صورت میں کبھی جلوہ گر نہیں ہوسکی۔ سمجھوتوں، معاہدوں اور سازشوں نے اسے کبھی پھلنے پھولنے نہیں دیا۔ جبر کی ایک اَن دیکھی فضا نے اسے ہمیشہ اپنا محکوم رکھا، جس کی وجہ سے اس کے حقیقی ثمرات عوام تک پہنچ نہیں پائے۔ لوٹ کھسوٹ کے کلچر نے عوام کو محرومی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ ایک خوں چکا داستان ہے، جس میں جمہوریت کی دلھن لپٹی ہوئی ہے۔ مغلِ اعظم کی جبریت نے اُسے انار کلی کے روپ میں کئی دفعہ دیوار میں چنوایا، لیکن یہ پھر بھی زندگی کی علامت بن کر نمو دار ہوگئی۔ طاقت کے مر اکز اُسے اپنی مٹھی میں بند رکھنا چاہتے ہیں، جب کہ عوام اُسے ہر قسم کے جبر سے آزاد دیکھنے کے متمنی ہیں۔ ہماری جمہوریت بڑے کڑے وار سہتی ہوئی موجودہ مقام تک پہنچی ہے۔
جمہوریت کی جنگ میں ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کے نام بڑے واضح، چمک دار اور روشن ہیں، جنھیں لاکھ کوششوں کے با وجود بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کی قربانیاں ہی ہماری جمہوریت کی بقا کی ضامن ہیں۔ وہ نہ ہوتے، تو شاید ہم قربانی، جرات، بہادری، دلیری، جی داری اور آئین و قانون کی حرمت سے نا واقف رہ جاتے۔ اُنھوں نے ہمیں اُن الفاظ کے معنی اپنے لہو کی قربانی سے اس طرح سمجھائے ہیں کہ اَب یہ ہمارے ایمان کا حصہ بن گئے ہیں۔ جمہوریت محض اُن کے کلمۂ ا نکار کی داستان ہے۔ در اصل یہی دو نام عوام کے لیے حوصلہ کا سر چشمہ ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کے چراغ کا لہو ان دونوں عظیم شخصیتوں کا عطا کردہ ہے۔ ان کی قربانی ہی جمہوریت کی روح ہے، جسے بار بار یر غمال بنا لیا جاتا ہے، لیکن عوام کاعزم اس کی رہائی کے لیے بے چین ہو کر طالع آزماؤں کے سامنے ڈٹ جاتا ہے، لیکن کٹھ پتلیوں کی سازشوں اور مفاد پرستوں کی چیرہ دستیوں سے جمہوریت کی یہ دلھن بار بار اِغوا ہوجاتی ہے اور ملک جبر، انتشار، لوٹ کھسوٹ، غربت، ظلم و ستم اور دولت کی ارتکاز کی نذر ہو جاتا ہے اور پھر ذاتی مفادات کا پہیا ملکی دولت کو ہضم کرنے میں مشغول ہوجاتا ہے، جب کہ اس کے حقیقی وارث محرومی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں انتخابات کا انعقاد ہمیشہ سے متنازع رہا ہے۔ دسمبر 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوگیا۔ لہٰذا اُن انتخابات کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے اپنی مرضی کے انتخابات کروانے کا ارادہ کرلیا۔ لہٰذا اُس کے بعد ہونے والے سارے انتخابات ’’فکسڈ‘‘ تھے۔ لہٰذا سیاسی جماعتیں ان کی مرضی کے سامنے عضوئے معطل قرار پانے لگیں۔
بی بی شہید نے میثاقِ جمہوریت کے ذریعے جمہوری روح کے نظامِ تنفس کی بہ حالی کے لیے میاں محمد نواز شریف کو قائل کیا، لیکن بعد میں وہی میاں برادران جمہوریت کی ڈولی کو بیچ چوراہے میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
اَب حالت یہ ہے کہ جمہوریت کی دلھن اِغوا ہوچکی ہے اور اس کے محافظ زِندانوں کے اندر قید ہیں۔ کوئی اُن کی جد و جہد کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ کوئی اُن کی جمہوری سوچ کو وزن دینے کے لیے تیار نہیں۔ کوئی اپنی غیر آئینی حرکات کو ترک کرنے کے لیے راضی نہیں اور کوئی جمہوری روح کی آواز سننے کے لیے تیار نہیں۔ ہر کوئی اقتدار کا بھوکا ہے اور اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار میں چُن دینا اور ان کا گرم گرم خون پینا ہی مقصدِ حیات قرار پاچکا ہے۔ کوئی آئینی بالا دستی کی آواز سننے کے لیے آمادہ نہیں۔ کوئی عدل وانصاف کی میزان کو کھڑا کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتا۔ کوئی کرپشن کی بیخ کنی نہیں چاہتا۔ کوئی عوام کے حقوق واپس کرنا نہیں چاہتا۔ کوئی طوقِ غلامی کو اُن کی گردنوں سے اتارنا نہیں چاہتا۔ کوئی شفاف اور غیرجانب دار انتخابات کے انعقاد کو یقینی نہیں بنانا چاہتا اور ملکی خزانوں کا حق عوام کی ملکیت میں دینا نہیں چاہتا۔
یہ دراصل ایک تنازع ہے جو روز بہ روز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک فرد اُن کی راہ میں ڈٹ کر کھڑا ہے، جس کی آواز پر عوام اب سازشی تھیوریوں کی بہ جائے اپنی طاقت کا لوہا منوانا چاہے ہیں، لیکن طاقت ور اُنھیں اُن کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ عوامی شعور کی بیداری نے نفرت کی خلیج گہرا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اور طاقت وروں کے درمیان آویزش دن بہ دن تیز ہوتی جا رہی ہے اور خون میں نہاتی جا رہی ہے۔
کوئی حتمی یقین اور وثوق سے یہ نہیں کَہ سکتا کہ اس آویزش کا خاتمہ کب ہوگا اورکون اس میں فاتح ہوگا؟ اس سے پہلے بھی کئی آمر آئے اور زندگی بھر کے اقتدار کے سہانے خواب سجائے مسندِ اقتدار پر فائز ہوئے، لیکن اُنھیں چند سالوں کے بعد منھ کی کھانی پڑی۔ کیوں کہ عوام کی مرضی، رائے اور خواہش کے بغیر محض طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ عوامی طاقت کی طاقت کو طاقت ور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عوام جذبوں کی مالا پہنے میدان میں کھڑے ہیں، لیکن طاقت ور اُنھیں مسل دینا چاہتے ہیں۔ خون بہ رہا ہے لیکن پھر بھی طاقت کے مراکز عوامی سوچ کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھ رہے۔ آوازِ وقت یہی ہے کہ جبر کی ہار کا وقت بالکل قر یب آن پہنچا ہے، جسے اُنھیں تسلیم کر لینا چاہیے وگرنہ عوام کا لہو یوں ہی بہتا رہے گا اور طاقت وروں کو مزید نفرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔