گلشن چوک سے نشاط چوک کی طرف جائیں، تو آپ کے بائیں طرف دُکانیں اور اُن کے پیچھے محلے مینگورہ شہر کی ایک بھرپور تاریخ جو ہر گلی، نکڑ، دروازے، گھر سے چیخ چیخ کر شہر کے ماضی کو بیان کرتی ہے، مگر اس کے سننے کے لیے وہ کان چاہئیں، جو شہر کی محبت سے لب ریز ہوں۔
محلہ میاں گان اور محلہ جلوخیل، کبھی یہاں سے پورا شہر کنٹرول ہوتا تھا۔ شہر کے موڈ کا تعین یہاں سے ہوتا تھا۔ شہر کی تپش کا سامان یہاں ہوتا تھا۔
دارالحکومت سیدو شریف کے مدِ مقابل یہ چھوٹا علاقہ غیر علانیہ دارالحکومت رہا۔ شاید یہ متنازع بات سمجھی جائے، مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
ٹانگو اڈا چوک میں میاں سید جلال اور دوسرے سیدوں کا جلال دیدنی ہوتا تھا۔ یہ سید گھرانے کولا ڈھیر گاؤں سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔ یہ بات ہمیشہ معمہ رہے گی، زیرِ بحث رہے گی کہ وہ آباد ہوئے یا آباد کیے گئے؟
منھ زور جلو خیل، مینگورہ کو اپنی راجدھانی سمجھتے تھے اور اُن کے ہوتے ہوئے کوئی فیصلہ مینگورہ پر مسلط کرنا ناممکن تھا۔ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ ایسا شاید کبھی کسی نے سوچا تھا۔
میاں سید جلال خود بھی بے قابو اور زور آور جب کہ شوق بھی سرپٹ اور منھ زور گھوڑے رکھنا تھا۔ تانگا، اور وہ بھی خوب سجا ہوا شہر میں سیدو کے نکلنے کی غمازی کرتا۔
دوسری طرف نشاط چوک تک ’’جلوخیل‘‘ خود کو مینگورہ کے اصلی خان، وارث اور ریاستِ سوات کی ضد کہتے اور سمجھتے۔
امان اللہ خان ولد حبیب اللہ خان ٹھیکے دار ’’اعظم مارکیٹ‘‘، ’’سوات سنیما‘‘ اور ’’امان سنیما‘‘ (پشاور) کے مالک، باچا خان، دلیل خان اور دیگر جلو خیل کے آبائی گھر بھی یہاں تھے۔ یہی پرانے سوات کی سیاست بھی تھی اور تاریخ بھی۔
سیدو اور مینگورہ کے سیاسی درجۂ حرارت کا اندازہ ان محلوں کی خاک چھان کر معلوم ہوتا۔
قارئین! یہ بات یہاں چھوڑتے ہیں۔اس حوالے سے باقی کام مینگورہ سوات میں طاقت کے توازن کے بدلتے رجحانات پر نظر رکھنے والوں کے سپرد کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔
آج کی نشست سید خدا بخش پاچا کے نام ہے، جنھوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اُن کے والد صاحب بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ والدہ نے ان کی ایسی تربیت کی کہ والد کی کمی اُنھیں محسوس نہ ہونے دی۔ اکلوتے بیٹے کو بے رحم سیاست سے دور رکھا۔ ابھی ساتویں آٹھویں جماعت تک ہی پہنچے تھے کہ ماں کو بیٹے کے وارث کی فکر لگ گئی اور چھوٹی ہی عمر میں اُن کی شادی کرادی۔ بت کڑہ (پرانے دور کا بت کدہ اور موجودہ گل کدہ نمبر 1) میں وسیع جاگیر ان کے حصے میں آئی تھی۔
اس طرح والدہ نے دوسرا محفوظ قدم اُٹھانے کی ٹھانی اور بیٹے کے ساتھ بت کڑہ شفٹ ہوگئیں۔ بیٹے کے میٹرک کرنے کے بعد بھی اُن کی ماں کے دل سے اُنھیں کھو دینے کا خوف ختم نہیں ہوا۔ نتیجتاً اُس وقت کے بڑے ڈاکٹر ’’ڈاکٹر رشید احمد‘‘ کو اپنی اولاد سونپ دی۔ وہ میٹرک کے بعد ڈاکٹر رشید احمد صاحب کے کتیڑے والے کلینک پر کام سیکھنے کی غرض سے جانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب سخت مزاج، بااُصول اور لائق انسان تھے، لیکن شاگرد بھی فرماں برداری، قابلیت اور اخلاق میں یک تا تھے۔ طویل عرصہ ڈاکٹر رشید احمد صاحب کے ساتھ گزارنے کے بعد اپنے علاقہ گل کدہ آئے۔ ایک خوب صورت کلینک کی بنیاد ڈالی۔ کلینک کے ساتھ ایک اچھا خاصا احاطہ تھا۔ دو بڑے بڑے اخروٹ کے درخت، صاف پانی کا نالہ، گلاب کے کئی پودے، دو کمرے، لش گرین صحن، یوں مکان باغ سے لے کر پانڑ، کالج کالونی تک کے مریضوں کو بنیادی طبی سہولیات میسر آگئیں۔
لائق ڈاکٹر کے تربیت یافتہ شاگرد کا طریقۂ علاج بالکل اپنے استاد سے ملتا جلتا تھا۔ طبی خدمات کے بعد علاقے کے لوگوں نے اُنھیں سیاسی میدان میں آنے کا کہا۔ اُس وقت صرف کامران خان ہی قریب ترین پڑوسی اور مہربان بزرگ تھے۔ باقی سڑک تک پہاڑی دامن تھا۔ گل کدہ روڑ اس پہاڑی کو کاٹ کر بنائی گئی تھی، جہاں اب اُن کا گھر اور ڈیرہ ہے۔ آگے ایک منھ زور ندی تھی اور اُس پر ایک پن چکی۔ باقی کھیت ہی کھیت تھے۔ کامران خان کی رہایش عین کھیتوں اور باغوں کے درمیان اکیلے واقع تھی۔ کچی سڑک تھی جس پر کامران خان اور خدا بخش پاچا کے ملازم بلاناغہ چھڑکاو کرتے۔ اس کچی سڑک پر چلتے مٹی کی خوش بو اور دو رویہ درختوں کی قطاریں یہاں کے رہنے والوں کے جمالیاتی ذوق اور نفاست کی گواہی دیتی تھیں۔
خدا بخش پاچا میونسپل کمیٹی مینگورہ کے رُکن منتخب ہوئے، تو میانگل امیر زیب، بیرم خان، محمد یوسف طوطا، کاکی خان، حاج رسول خان، محمدی خان، سیاب خان، مکرم خان وغیرہ جیسے مینگورہ کے ’’کریم‘‘ (Cream) لوگ میونسپل کمیٹی کے ارکان تھے۔ سب نے مل کر شہر کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
اب وقت نے سب کچھ بدل دیا ہے، سب کچھ اُلٹ پلٹ کر دیا ہے۔ ایک کھڑکی تاریخ میں کھولتا ہوں، تو ایک مہربان کردار سے ملاقات ہوتی ہے۔ بند کرتا ہوں، تو کسٹم چور گاڑیوں کی قطاریں، بے لگام دولت کی فراوانی اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی بدہضمی اور گندی ڈکاریں موڈ خراب کر دیتی ہیں۔ سید خدا بخش پاچا کو اللہ تعالیٰ لمبی زندگی عطا فرمائے۔ اب بھی سماجی و سیاسی خدمات میں پیش پیش ہیں۔
وقت نے سب کچھ بدل دیا ہے، مگر اُن کے مہربان طرزِ عمل، خدمت کے جذبے، ہمت اور استقامت کا وقت بال بھی بیکا نہ کرسکا۔ سید خدا بخش پاچا مینگورہ شہر کا اصلی چہرہ ہیں۔ اللہ انھیں لمبی زندگی عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔