سید محمد المعروف کچے اُستاد

Blogger Sajid Aman

مینگورہ شہر کنکریٹ کا جنگل بن گیا ہے۔ اردگرد کے پہاڑوں پر بھی آبادیوں کا سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے گنجان آباد ترین شہروں اور آبادی میں بے تحاشا اضافے کے لحاظ سے مینگورہ شہر پہلے نمبروں پر آتا ہے۔
جب مینگورہ شہر کی لمبائی کی حد محض سہراب خان چوک تک تھی اور سہراب خان چوک، چونگی چوک کہلاتی تھی، جب وہاں میونسپل کمیٹی کا پھاٹک لگا تھا، جب وہاں سے مینگورہ شہر میں داخل ہونے والوں سے محصول چونگی وصول کی جاتی تھی، جب نوے کلے الگ گاؤں تھا اور گرین چوک پر مینگورہ شہر کی بس ہوجاتی تھی، جب تاج چوک سے آگے سڑک مینگورہ سے باہر نکلنے والی شمار ہوتی تھی اور جب حاجی بابا چوک شہر کی آخری مگر سنسان چوک شمار ہوتی تھی، تب موجودہ ملا بابا روڑ ’’کباڑی بازار‘‘ کہلاتی تھی۔ یہاں شہر بھر کے مستری خانے ہوا کرتے تھے۔ ڈینٹر، پینٹر، مستری، ٹانگوں اڈا، ہارڈویئر، سپیئر پارٹس یہاں دست یاب تھے۔
شمشاد مستری صاحب مرحوم کی بڑی ورک شاپ یہاں تھی۔ وہ ٹانگو اڈا پانی کی ٹینکی کے ساتھ آباد تھی اور سڑک کی دوسری جانب ملا بابا کے مجاور جیفل کا گھر، جس پر موسمی پھلوں کی ہانڈیاں دھری ہوتیں۔
اب جہاں اودھیانہ مارکیٹ ہے، اس کی جگہ مستری خانہ تھا۔ بھلے دنوں میں ’’سپیشل طوطی رحمان‘‘ نے چائے کا ہوٹل کھول لیا اور گلے میں لٹکا کیک پیسٹری کا ٹرے چھوڑ دیا۔
پہلی دفعہ اچھی خیراد کی مشینری کے ساتھ علی خان اُستاد دولت خیل امان کوٹ اسی بازار میں انقلاب لے کر آیا۔
فرید میر خان خیل کے گھر کے آگے شمشاد مستری صاحب اور آگے مخالف سمت میں کچے استاد صاحب کا اڈا تھا۔ کچے استاد محض مستری استاد نہیں تھے، بل کہ اُن کے اڈے پر سیاسی اور غیر سیاسی بحث و مباحثے کا دور چلتا تھا۔ یہاں ہر طرح کے لوگوں کا آنا جانا تھا۔ یہاں آنے والے لوگ اپنے ساتھ شعور و آگہی لاتے اور بانٹ کر چلے جاتے۔ کچے استاد کا اڈا ایک باقاعدہ حجرہ تھا۔ ایک تربیتی مرکز تھا۔
جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں، پختون معاشرے میں حجرے کا تصور مینگورہ شہر میں حجروں کے تصور سے قطعاً مختلف رہا۔ اگر کوئی محقق اس پر کام کرے، تو یہ بہت اچھا اور دل چسپ موضوع ہے۔ اس حوالے سے بہت اچھے چھپے گوشے سامنے آسکتے ہیں۔
گو کہ مینگورہ میں شیرزاد خان کے حجرے کو مرکزیت حاصل تھی۔ یہ لنگر خیل، میر خیل اور برہان خیل کا مشترکہ حجرہ تھا، مگر آہستہ آہستہ یہ شیرزاد خان بابا کا حجرہ ہوگیا۔ ان کی فیاضی، تعلقات اور مہمان نوازی کا مینگورہ میں کبھی کوئی ثانی نہیں رہا۔
وزیر مال صاحب کے حجرے کو ایک طرح سے مینگورہ کے دارالحکومت کا درجہ حاصل تھا، مگر روایتی پختون حجرے کی حیثیت اسے بھی حاصل نہیں تھی۔ گو کہ یہاں کھلے دل، روشن پیشانی اور مددگار ہاتھ ضرور موجود تھے۔
میر خان خیل، بوستان خیل حجرے، عیسیٰ خیل، فتح خان خیل حجرے اور ہر خیل کا حجرہ تھا، مگر حجروں کو شاید باروز خان ، ڈوڈا، سرکار وغیرہ کے چاپ (حجام کی دکان)، کاکو ٹال، شمشاد مستری اور کچے اُستاد جیسے اڈوں نے کھل کر پوری طرح پنپنے نہیں دیا، جہاں ہر موضوع پر آزادی سے بات ہوسکتی۔
کچے استاد اپنا کام بھی کرتے اور ایک ایک بھرپور پلیٹ فارم بھی مہیا کرتے، جہاں روز لوگ کھل کر اظہارِ خیال کرتے، اخبار بھی پڑھنے کو ملتا اور کسی قسم کی تنقید یا موضوع منع نہیں تھا۔
سید محمد عرف کچے استاد کا بنیادی تعلق پشاور (تارو جبہ) سے تھا اور پشاور کے سیدان کے نام سے جانے جاتے تھے۔ 1920ء میں مینگورہ شفٹ ہوئے اور پھر یہیں کے ہوکے رہ گئے۔ اُن کے دو فرزند تھے۔ وہ ورک شاپ پر والد صاحب ہی کے ساتھ ہوتے۔ والد صاحب کی تربیت کا دونوں پر گہرا اثر تھا۔ فقیر محمد (مرحوم) اور فضل محمد دونوں بیٹوں نے والد صاحب کے راستے کو چنا اور والد صاحب کے دوستوں کو بھی ہمیشہ رابطے میں رکھا۔ یہیں اُن کی نسل پلی بڑھی اور یہیں کی ہوکے رہ گئی۔
کچے اُستاد نے مینگورہ کی آبادی سے کافی دور گنبد میرہ سے آگے پُرفضا مقام پر زمین لے کر اپنا مکان اور ڈیرہ بنایا۔ اُن کی رہایش گاہ اُن کا علاقہ ’’کچے اُستاد‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، مگر اَب اُس سے آگے بھی بہت آبادی بس گئی ہے۔ اَب شہر اور پہاڑ ہم آغوش ہوگئے ہیں۔
فقیر محمد (مرحوم) کے چھے بیٹے ہیں: نثار محمد، سردار محمد، زاہد محمد، ریاض محمد، صادق محمد اور سعید محمد۔
پھر نثار محمد کے چار بیٹے ہیں: محمد شعیب، عبد الرحمان، الیاس اور حمدان۔
کچے اُستاد مینگورہ شہر میں پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں سے تھے۔ پیپلز پارٹی سے تعلق اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے نعروں پر بیعت اُن کی روشن خیالی اور ذہنی پختگی کا ثبوت ہے۔ اُس وقت پیپلز پارٹی ملک کی اسٹبلشمنٹ اور اشرافیہ کے خلاف اور مزدور، کسان اور محنت کش کے حق میں بھرپور آواز تھی، جس نے ’’سٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کیا تھا۔ اس کے ساتھ ماؤزے تنگ اور مارکس کے فلسفے سے متاثر تھے۔ شہر میں رجعت پسند، ترقی پسند، کنزرویٹو خیالات کے الگ الگ اور مشترکہ مراکز تھے، مگر احترام، اظہارِ رائے کی آزادی، اختلاف رکھ کر تعلق رکھنے کا ہنر بھی تھا۔
ہم نے پچھلی نسل کے ساتھ ساری روایات دفن کر دیں۔ جو حجرے تھے، وہ ڈھیروں میں بدل گئے۔ جو ’’چاپ‘‘ تھے، وہ سیلون بن گئے۔ جو اڈے تھے، وہ سنسان ہوکر ڈھا دیے گئے، یا اب اُن پر نئی فلک بوس عمارتیں کھڑی ہیں۔ اب انسان ہی انسان ہیں، آبادی ہی آبادی ہے، مگر بلا کی اجنبیت ہے، شور شرابا ہے، سکون نامی کوئی شے نہیں۔
اللہ تعالیٰ کچے استاد کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، آمین!
 ……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے