سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے رچائی گئی نام نہاد احتجاجی تحریک کی فائنل کال کے حوالے سے 26 نومبرکو شائع ہونے والے اپنے کالم ’’تحریکِ انصاف کی فائنل کال کتنی موثر ہے؟‘‘ میں اعداد و شمار کے ساتھ فائنل کال کی ناکامی کا پیشگی تذکرہ کردیا تھا اور وقت نے ثابت کیا کہ فائنل کال کا نتیجہ واقعی صفر ہی نکلا۔
اُس کالم کی اشاعت کے بعد بندۂ ناچیز کو عقل سے پیدل مخلوق کی جانب سے گالم گلوچ اور لعن طعن کے تحائف موصول ہوئے۔ 26 اور 27 کی درمیانی شب ڈی چوک اور ملحقہ علاقوں میں بھل صفائی مہم کا آغاز کردیا گیا، جس میں مذہبی ٹچ اور کارکنوں سے عمران خان کو جیل سے نکالے بغیر گھروں کو نہ لوٹنے کے عہد و پیماں لینے والی نام نہاد روحانی، مذہبی و سیاسی خاتون بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی، بھڑکیں مارنے اور وکٹ کی دونوں جانب کھیلنے والے گنڈا پور کے ساتھ میدانِ کارزارسے ایسے چھومنتر ہوگئیں، جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوجاتے ہیں۔
27 نومبر کی صبح ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عقل سے پیدل پیروکار اپنی لیڈر شپ کی اس بزدلی پر سوال اُٹھاتے، مگر حسبِ معمول ایسا ہرگز نہ ہوسکا۔ پی ٹی آئی کی خوش نصیبی ہے کہ ایسے پیروکار اکثریت میں ہیں، جو اپنی پارٹی لیڈر شپ کے خلاف بات سننا گوارا ہی نہیں کرتے۔ جو لیڈر شپ نے بیانیہ جاری کردیا، اُس پر آنکھیں اور عقل کے دروازے بند کرکے ’’آمین‘‘ پکار اُٹھتے ہیں۔
یہاں سوال فائنل کال کی ناکامی پر اُٹھنے چاہیے تھے، مگر حسبِ معمول پارٹی لیڈر شپ نے لاشوں کا نیا بیانیہ جاری کردیا۔ کوئی پچاس، تو کوئی ایک صد لاشیں گنوانا شروع ہوا۔ کسی نے لاشوں کی ڈبل سنچری بنا ڈالی، تو کسی نے ٹرپل سنچری بھی کراس کر دی۔ پارٹی لیڈرشپ کی اکثریت نے انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی قوم کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ شبانہ روز میڈیا ٹاکس میں گھٹے جوڑ کرلاشوں کی سنچریاں مکمل کرنے کی افسانوی کہانیاں سناتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی خیال نہیں کیا کہ وہ مسلمان ہیں اور دینِ اسلام میں جھوٹ کو گناہِ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے۔
کہتے ہیں ناں کے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ پھر ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔ بالآخر پارٹی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے پارٹی لیڈرشپ اور پارٹی کارکنوں کی جانب سے لاشوں کی سنچریاں مکمل کرنے والی رام کہانیوں پر یہ کَہ کر پانی پھیر دیا کہ فائنل احتجاجی کال کے دوران میں صرف 12 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ چلیں
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
لیکن جب تک سچ معلوم ہوتا ہے، جھوٹ اور پروپیگنڈا اپنا کام کرچکا ہوتا ہے۔ یہ بات بھی پختہ یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پی ٹی آئی ان بارہ لاشوں کی تفصیل بھی عوام الناس کے سامنے کبھی نہیں رکھ پائے گی۔
ہفتہ سے زائد عرصہ ہونے کو ہے، مگر پی ٹی آئی لیڈرشپ کی جانب سے نام نہاد شہداکے قتل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے کسی قسم کے اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے۔ ٹرپل سنچری سے یک دم بارہ افراد کی ہلاکت کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر پارٹی سے محبت کرنے والوں نے بیرسٹر گوہر خان پر لعن طعن اورگالی گلوچ کی بمباری شروع کردی ہے۔
ہماری سیاسی و مذہبی جماعتیں لاشوں کی اتنی دل دادہ کیوں ہیں؟ ماضیِ قریب ہی میں دیکھ لیا جائے، تو عوامی تحریک اور پی ٹی آئی نے ماڈل ٹاؤن لاشوں پر کیا کچھ نہیں کیا؟ مگر سوال بنتا ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومت میں آکر سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے نام زد ملزمان کو چُن چُن کر اعلا ترین عہدوں پر ترقیاں کیوں دیں؟ اب پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے لیڈران کی جانب سے ماڈل ٹاؤن لاشوں کا تذکرہ سننے اور دیکھنے کو کیوں نہیں ملتا؟ فیض آباددھرنا اول و دوم میں سیکڑوں لاشوں کے دعوے کیے گئے، مگر آج تک فوت شدگان کی تفصیلات منظر عام پر نہ آسکیں۔
کہنے کو تو پاکستان ایک ریاست ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں سیاست اور مذہب سے منسوب من گھڑت واقعات پر آگ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ پارٹی لیڈرشپ لاشوں پر شور و غوغا کرتی نظر ضرور آئے گی۔ خدا نہ خواستہ واقعی اگر کوئی لاش گرتی ہے، تو آپ لیڈران کو جنازوں میں شامل ہوتا نہیں دیکھیں گے۔
بیرسٹر گوہر خان کے تازہ بیان کے بعدچند سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ:
پی ٹی آئی لیڈران، جنھوں نے لاشوں کی سنچریاں مکمل کرلی تھیں، کیا وہ میڈیا کے سامنے سرِعام معافی مانگیں گے؟
دو سو، تین سو، چار سو اور آخر میں بارہ تک آنے والی لاشیں گئیں کہاں؟
پی ٹی آئی لیڈرشپ کو خیبر پختونخوا میں 130 سے زائد لاشیں نظر کیوں نہیں آتیں؟
درجِ بالا سوالات کا سیدھا اور صاف ساجواب یہی ہے کہ بے شرمی کے ساتھ جھوٹ بولنے والے نہ معافی مانگیں گے اور نہ ان کو پاراچنار میں پڑی لاشیں نظر ہی آئیں گی۔
میرے خیال میں اب پی ٹی آئی کے سنجیدہ حلقوں کو سمجھ آنا شروع ہوچکی ہوگی کہ موجودہ لیڈرشپ بانی (عمران خان) کو کال کوٹھری سے نکالنے کی بہ جائے سستی شہرت اور لاشوں کی متلاشی ہے۔ لہٰذا مستقبلِ قریب میں وہ پنکی پیرنی اورگنڈا پور ایسی لیڈرشپ کے فریب میں نہیں آئیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔