عین وقت پر سفید جیپ اپنے بونٹ پر ریاستی پرچم لہراتی ہوئی گراؤنڈ میں داخل ہوئی۔ مَیں نے ان کے لیے دروازہ کھولا۔ والی صاحب نے مجھ سے مصافحہ کیا، پھر حاکم اور آفرین خان سے مصافحہ کیا۔ دونوں نے گارڈ آف آنر کے بعد والی صاحب سے جرگے سے ملاقات کی درخواست کی۔
آکسٹرا نے ’’کُل ثنا ربہ! ستا دہ‘‘ ریاستی ترانہ بجایا اور فوجیوں نے شاہی سلامی پیش کی۔ اس کے بعد جب وہ جرگے کی طرف جا رہے تھے، تو شیرین حاکم نے غیر رسمی انداز میں والی صاحب کا بازو پکڑ کر ان سے اپنی قربت کا اظہار کیا۔ وہ انھیں پہلے قاضیوں سے ملانے لے گئے۔ والی صاحب ہر ایک قاضی سے فرداً فرداً ملے اور ان کے مسائل کے بارے میں دریافت کیا۔ انھوں نے حاکم سے کہا کہ قاضیوں کی تنخواہیں بڑھائیں۔
جرگے سے ملاقات کے بعد انھوں نے مجھے اشارہ کیا اور ہم نو تعمیر شدہ ٹیلی فون ایکسچینج کی طرف بڑھ گئے۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ اَب میرے لیے سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ ان کے ساتھ شہزادہ بحرِ کرم اور شیر محمد خان وزیر مال بھی تھے۔ والی صاحب نے لکڑی کی نئی تیار کردہ چھت میں شگافوں پر اعتراض کیا۔ مَیں نے کہا کہ یہ کام ہنگامی طور پر کیا گیا تھا۔ کیوں کہ پرانے ایکسچینج کی چھت منہدم ہوگئی تھی اور مشینری کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ استعمال کی جانے والی لکڑی پرانی اور خشک نہیں تھی، جس کے نتیجے میں چھت کے درمیان دراڑیں پڑگئیں۔ مَیں نے ان شگافوں کو لکڑی کی دو انچ چوڑی پٹیوں سے ڈھانپنے کا مشورہ دیا، جسے والی صاحب نے فوراً منظور کرلیا۔
اس کے بعد ہم زیرِ تعمیر ہسپتال گئے۔ وہاں انھوں نے اس کام کو بھی سراہا۔ ہم واپس سکول پہنچے، جہاں ان کے اعزاز میں عصرانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ صرف چائے نہیں تھی، بل کہ ایک زبردست دعوت تھی۔ وہ ہال میں داخل ہوئے، اپنی نشست سنبھال لی اور عملے اور جرگے کو اپنے ساتھ بیٹھنے دیا۔ عام بحث شروع ہوئی۔ بحث میں ہر خان نے حصہ لیا۔ اچانک والی صاحب نے مجھے ہال کے باہر کھڑے دیکھا۔ انھوں نے مجھے اندر بلوا لیا۔ مَیں اندر گیا اور انھوں نے کمال شفقت سے مجھے میز پر اپنے سامنے بیٹھنے کو کہا۔ یہ میرے لیے ایک منفرد اعزاز تھا۔
اس طرح میرا معائنہ اور والی صاحب کا دورہ ایک خوش کن اختتام کو پہنچا۔ جیپ میں بیٹھتے ہوئے انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے یہاں پر کوئی مسئلہ تو نہیں؟ مَیں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میرے ساتھ سب ٹھیک ہے۔ چناں چہ وہ مقامی لوگوں کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے روانہ ہو گئے۔ ان کی روانگی کے ایک گھنٹے بعد، جب مَیں شیرین حاکم صاحب کے پاس بیٹھا تھا، الپورئی سے فصیح اللسان حاکم نے مجھے فون کیا اور مجھے میری خوش قسمتی پر مبارک باد دی۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔