مَیں کتابیں پڑھنا پسند کرتا ہوں، لیکن کسی کتاب پر لکھنے اور تبصرہ کرنے کا مَیں ہرگز قائل نہیں ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ کسی کتاب پر کچھ لکھنے سے ہم اس کے لفظوں کو پامال کرکے اس کے تقدس کو پاؤں تلے روند کے اسے ایک طرح سے بے آبرو کر دیتے ہیں۔
کچھ کتابوں کا ایک ایک لفظ، ایک ایک جملہ لکھتے وقت ایک لکھاری کتنی تخلیقی اور فکری کرب سے گزرا ہے، وہ پڑھنے والا کتاب کو دس بار پڑھ کے بھی محسوس نہیں کر پاتا۔
کتاب لکھتے وقت ایک لکھاری نے اپنی زندگی کے کتنے قیمتی لمحے، قلم ہاتھ میں پکڑ کے تاریک کمروں کی اُن بے جان دیواروں کو گھور گھور کے گزاری ہے؟ یہ کوئی بتا نہیں سکتا۔ لکھنے والے نے اپنے اندر اُبلنے والے لاوے سے نہ جانے کتنی بار اپنی معصوم روح کو یہ سمجھا کے جلانے کے لیے راضی کیا ہوگا کہ بس یہ آخری بار ہے۔ اس کے بعد میں مزید ایسا نہیں لکھوں گا!
لیکن ہر لکھاری یہ بات بھی جانتا ہے کہ اس کے اندر کی بے چینی، بے زاری، روح کی جلن اور کربِ مسلسل کا آخری سانس تک کوئی علاج نہیں۔ کوئی کہانی لکھتے وقت کس نے کتنی بار اپنا جگر کاٹ کے اس سے رسنے والے خون اور آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں میں قلم کو ڈبو کے لکھا ہے، یہ کوئی نہیں جان سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ لفظوں میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے ہم زادوں کا وزن اٹھا سکے…… لیکن کبھی کبھار لفظوں کو یہ گستاخی کرنی چاہیے۔
مَیں بھی ’’نیم زاد‘‘ جو کہ حیات روغانی کے پشتو ناول ’’نینزک‘‘ کا اُردو کا ترجمہ ہے، ترجمہ ’’پروفیسر گوہر نوید‘‘ نے کیا ہے، اس پر لکھ کر یہ گستاخی کررہا ہوں، لیکن لکھنے والے سے مل کے اس کی معافی بعد مَیں ضرور مانگوں گا۔
’’نیم زاد‘‘ اُن انسانوں کی کہانی ہے، جن کی تخلیق اُن کے گلے کا پھندا بنی ہوئی ہے۔ یہ اُس جنس کی کہانی ہے، جو نہ تو مکمل عورت ہوتی ہے، نہ مرد…… اور نہ اُسے انسان ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہ اُس پیچیدہ نفسیات کی کہانی ہے، جس سے وہ ادھورے انسان گزرتے ہیں، جنھیں وہ خود سمجھتے ہیں اور نہ باقی انسان ہی سمجھتے ہیں۔ البتہ لکھنے والے نے کیا خوب سمجھ کے یہ لکھا ہے کہ ’’ہر مرد اور عورت میں ایک ہیجڑا چھپا ہوا ہوتا ہے، جس طرح ہر پیر و جوان میں ایک بچہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔‘‘
’’نیم زاد‘‘ دراصل خواجہ سراؤں پر ہونے والے ظلم و ستم کی کہانی ہے۔ یہ اُن کی زندگی کے اُن پہلوؤں کی کہانی ہے، جن سے کوئی بھی واقف نہیں ہوتا، لیکن بابا (حیات روغانی) نے تو اُن کے اندر گھس کے، اُن جیسا بن کے، اُن کے ساتھ زندگی گزار کے یہ کہانی لکھی ہے۔ تبھی تو وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ کہانی لکھتے وقت میرے قلم پر ایک ماں کی ممتا برس رہی ہے۔‘‘
یہ پہلو اس ناول کو نہایت منفرد بناتا ہے۔
یہ اس موضوع پر لکھا جانے والا پہلا ناول ہے۔ میری تحقیق کے مطابق اس موضوع پر پہلے کسی نے قلم نہیں اُٹھایا، البتہ آج کل پشتو میں اس پر ایک اور ناول اور چند افسانے لکھے جاچکے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ اُن روایات کی کہانی ہے، جہاں دشمن کی سوگ پر بھی جشن نہیں منایا جاتا، جہاں خوشی پر ڈھول اور موسیقی کے ساتھ ساتھ بھنگڑے ڈالنے کا دستور ہوتا ہے۔ یہاں خون کے بدلے بہائے گئے خون کو ماتھے پر سجانا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہماری غیرت، ہماری مہمان نوازی، ہمارے دستور، رواج اور ہماری پشتون ولی کی کہانی ہے…… یہ ہم پشتونوں کی کہانی ہے۔
اِس کہانی میں اِس بدقسمت خطے میں تاریخی طور پر ہوئے ظلم و ستم بیان ہوئے ہیں اور مذہب کے نام پر ہمارے ساتھ چار دہائیوں پہلے شروع ہونے والے اس خونی کھیل سے ہونے والی بربادی بھی لکھی گئی ہے۔ بین الاقوامی طاقتوں کے اشاروں پر ناچنے اور سیاسی رسہ کشی سے ہونے والے مسائل کا ذکر بھی اس میں تفصیل سے ملتا ہے۔ یہ پختونخوا اور کراچی کے خراب حالات کا آئینہ ہے۔ یہ کہانی آپ کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے اور کبھی کبھی آپ کی آنکھوں کو بھی نم کر دیتی ہے۔ اگرچہ لکھنے والا آنسوؤں کو کسی بھی حال میں اچھا نہیں سمجھتا، لیکن وہ پھر بھی آپ پر یہ جبر کرتا ہے کہ آپ یہ پڑھ کے آنسوں بہائیں۔
باقی مَیں خود کو اس اہل نہیں سمجھتا کہ ناول کی ساخت یا مسائل پر لکھ سکوں، یا ترجمہ میں ہونے والی غلطیوں پر بات کروں۔ خدا ہمیں اس ناول کو پڑھنے، سمجھنے اور اس میں دیے جانے والے پیغام پر من و عن عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ یہ معاشرہ ان لوگوں کو قبول کرسکے، جن کا جنازہ پڑھنے کے لیے بھی 50 ہزار روپے رات کے اندھیرے میں وصول کیے جاتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔