امیر خان، نیکپی خیل کے بڑے بااثر خان تھے۔ اللہ نے اُنھیں دس بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا تھا۔
عظیم خان جوانی ہی میں ریاستی فوج میں شامل ہوئے، جو نوکری یا مصروفیت سے زیادہ ایک اعزاز کی بات تھی۔ سوات کی فوج میں صوبے دار رہے۔ ریاست کے انضمام کے بعد 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں شرکت کی اور بہادری دِکھائی۔ اس وجہ سے غازی ہوئے اور پھر اُن کو غازی کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
جنرل ایوب خان اور ریاستِ سوات کی سیاسی پالیسیوں میں ہمیشہ ہم آہنگی رہی۔ گو کہ سوات میں پاکستان بھر کے مفرور آکر پناہ لیتے اور کوئی بھی جرم نہ کرنے کی ضمانت دیتے، مگر کسی بھی سیاسی پناہ گزین کے لیے سوات میں کوئی جگہ نہیں تھی۔
ریاستِ سوات میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی، مگر جماعتِ اسلامی سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ترقی پسند اور اصلاح پسند مذہبی تحریک کے طور پر متعارف ہو رہی تھی اور سوات بھی اس اثر سے محفوظ نہ رہ سکتا تھا۔ غازی پاچہ گل تک جماعتِ اسلامی کا پیغام پہنچ چکا تھا۔ 1971ء کی جنگ کے بعد اُنھوں نے مزید توجہ سے جماعتِ اسلامی اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کا مطالعہ کیا اور پھر اس پارٹی میں شامل ہوئے۔ شامل کیا ہوئے، اپنے آپ کو وقف کر دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے خلاف تحریک میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی۔ پاچہ گل اسی دوران میں بھٹو صاحب کے خلاف مزاحمت کا ایک استعارہ بن گئے۔ 1971ء کے سقوطِ ڈھاکہ نے اُن پر گہرے اثرات چھوڑے۔ وہ بھی سقوط کو مجیب الرحمان اور بھٹو صاحب کی ملی بھگت سمجھتے رہے، جیسے جماعتِ اسلامی کا بیانیہ تھا۔ بھٹو صاحب کی مخالفت میں شدت کی ایک وجہ یہ درد بھی تھا۔
پاچہ گل انتہائی پاک باز اور بااُصول انسان تھے۔ اُن کے شدید مخالف بھی اس کا اقرار کرتے تھے۔ اُنھوں نے بہت پاک زندگی گزاری۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ آخری وقت میں چیئرمین عشر و زکوٰۃ کمیٹی بنے۔ ایک بڑے اور بااثر خان کے انتہائی متحرک بیٹے ہونے کے باوجود ایک عام زندگی، لوگوں کے بیچ رہنا، ایمان داری اور خدا ترسی پر قائم رہنا گویا اُن پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھا۔
اللہ تعالیٰ اُنھیں جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔