پاکستان دنیا کا شاید وہ واحد ملک ہے، جہاں جرائم کی روک تھام کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد اپنا کام دھڑلے سے جاری رکھتے ہیں۔
جرائم کی روک تھام میں قانون کی حکم رانی کا موثر اور کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے جتنا بڑا قانون شکن ہوتا ہے، اُسی قدر وہ معزز کہلاتا ہے۔
جرائم کی سزائیں نہ ہونے کے سبب قانون کے بعض رکھوالے بھی قانون شکن عناصر کے دست و بازو بن جاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاست دانوں اور حکم رانوں کی غلامی سے ہی فرصت نہیں ملتی، تو وہ عوام کا کیا سوچیں گے۔ یہ ادارے حکم رانوں کی کٹھ پتلیاں بن کر رہ گئے ہیں۔
دوسری طرف مجرم قانونی موشگافیوں کا فائدہ اٹھا کر سزا سے بچ جاتے ہیں۔ یوں ہی تو ہم عدل و انصاف کے معاملے میں دنیا بھر میں پست ترین درجے تک نہیں پہنچے۔
ہمارے یہاں لوگ سرِعام ’’فراڈ‘‘ کا دھندا کرتے ہیں۔ لٹنے والے دہائیاں دیتے رہ جاتے ہیں، مگر اُن کی کوئی نہیں سنتا۔
کبھی ’’ڈبل شاہ‘‘ کے روپ میں فراڈیے منظرِ عام پر آتے ہیں، تو کبھی ہاؤسنگ سوسائٹی کا جھانسا دے کر ایک سو پلاٹ کے بدلے 30 ہزار فائلیں بیچ کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ کبھی بے نظیر انکم سپورٹ کے جعلی میسج بھیج کر لوگوں کو ان کی کمائی سے محروم کرتے ہیں، تو کبھی قرضہ دینے والی ’’ایپس‘‘ کے ذریعے عوام کو قرضے کے جال میں پھانس کر ان کی زندگی بھر کی کمائی سے محروم کر دیتے ہیں۔
لوٹنے کے نئے نئے ڈھنگ، نئے نئے طریقے ایجاد کر لیے جاتے ہیں۔ یہ لوگ خوب صورت خواتین کا سہارا لے کر اُن کی مردوں سے آن لائن دوستیاں کرواتے ہیں اور کم زور لمحات کی تصاویر اور ویڈیوز بنا کر شکار کو بلیک میل کرتے ہیں۔
کچے کے ڈاکو بے شمار لوگوں کو ’’ہنی ٹریپ‘‘ کے ذریعے اِغوا کرکے اُن کے ورثا سے بھاری تاوان وصول کرچکے ہیں۔
یہ فراڈیے اور وارداتیے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے طریقہ ہائے واردات میں بھی جدت لاتے رہتے ہیں۔ آج کل پٹرول کی جگہ گاڑیوں کو ’’الیکٹرک انرجی‘‘ پر منتقلی کا دور دورہ ہے۔ الیکٹرک کاریں، الیکٹرک بائیکس اور الیکٹرک سکوٹیوں کی مانگ میں اضافہ ہوچکا ہے۔ ایک ایوریج سکوٹی دو لاکھ روپے کے لگ بھگ دست یاب ہے، جو الیکٹرک بیٹری سے چلتی ہے اور ایک چارجنگ میں اوسطاً ایک سو کلومیٹر کے لگ بھگ سفر کرلیتی ہے۔
اس طرح الیکٹرک کاریں بھی مارکیٹ میں آ چکی ہیں، جن کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس رجحان کو دیکھتے ہوئے فراڈیوں نے بھی اپنا طریقۂ واردات تبدیل کرلیا ہے۔ آپ کو فیس بُک، انسٹاگرام اور ٹیلی گرام پر ایسی تشہیری ویڈیوز کی بھرمار نظر آئے گی، جس میں کسی گودام کے اندر سیکڑوں کی تعداد میں سکوٹیاں کھڑی نظر آئیں گی اور ساتھ میں یہ بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ سکوٹیاں صرف 20 یا 25 ہزار روپے فی کس میں دست یاب ہیں، جو ایک بیٹری چارجنگ میں ڈیڑھ سے دو سو کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہیں۔
دو سیٹر الیکٹرک کاروں کے خوب صورت ڈیزائن دکھائے جاتے ہیں، جن کی قیمت 50 ہزار سے 1 لاکھ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔
بعض ایپس میں آپ کو الیکٹرک رکشے 40 سے 50 ہزار روپے میں دینے کی آفر کی جاتی ہے۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں۔ آپ کو ان ایپس کے ذریعے 80 اِنچ ’’ایل ای ڈی‘‘ 25 ہزار روپے میں، آٹو میٹک واشنگ مشین جس کی بازار میں قیمت 80 ہزار روپے ہے، وہ صرف 18 ہزار روپے میں، جہیز پیکیج جو کم از کم 5 لاکھ روپے کی آئٹمز پر مشتمل ہوتا ہے، صرف 70 ہزار روپے میں اور بہترین لیپ ٹاپ صرف 10 ہزار روپے میں دینے کی پیش کش بھی کی جاتی ہے۔
ان ایپس میں آپ کو کسی بھی شوروم کا ایڈریس نہیں بتایا جاتا۔ رابطے کے لیے ایک واٹس اَپ نمبر دیا جاتا ہے، جس کے ذریعے آپ اپنی مطلوبہ آئٹم حاصل کرسکتے ہیں۔
کم آمدنی والے افراد کے لیے یہ پیش کشیں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ 35 ہزار روپے کی تو رکشہ کی بیٹری آتی ہے۔ نواں نکور پورا رکشہ 30 ہزار میں کیسے وارا کھا سکتا ہے؟
اس طرھ ایک لاکھ روپے سے زائد کے کار کے ٹائر آتے ہیں، تو پوری کار 50 ہزار روپے میں کس طرح مل سکتی ہے؟
بچت کی لالچ میں وہ دیے گئے نمبر پر رابطہ کرتے ہیں، تو انھیں بتایا جاتا ہے کہ ان کی مطلوبہ سکوٹی، کار یا دوسری آئٹم کا سٹاک ختم ہوگیا ہے۔ دو چار دن تک تازہ مال آ جائے گا، مگر اس کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔ پریشانی سے بچنے کے لیے آپ ففٹی پرسنٹ رقم ادا کرکے ایڈوانس بکنگ کروا لیں۔ بقایا رقم مال وصول کرنے کے بعد ادا کر دیجیے گا۔
سستے مال کی لالچ میں جو لوگ آن لائن بکنگ کروا لیتے ہیں، وہ اپنے پیسوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بعد میں مطلوبہ نمبر پر ان کا رابطہ ہی نہیں ہو پاتا۔
اِغوا کار بھی یہ طریقہ اختیار کر رہے ہیں۔ وہ گاہک کو کسی دور دراز شہر میں اس کے مطلوبہ مال کی ڈلیوری کے لیے بلواتے ہیں اور بے ہوش کرنے کے بعد وہاں سے اپنے ٹھکانے پر لے جاتے ہیں۔
اکثر مغوی کچے کے ڈاکوؤں کو فروخت کر دیے جاتے ہیں جو کئی گنا منافع وصول کرکے انھیں رہا کرتے ہیں۔
یہ سارا دھندا دھڑلے سے جاری ہے۔ ہمارے ہاں قانون صرف اُس وقت حرکت میں آتا ہے، جب واردات ہو چکی ہوتی ہے۔ واردات روکنے کا یہاں کوئی رواج نہیں۔
اگر حکم رانوں کی اپنے پروٹوکول اور مخالفین کو دبانے کے لیے انتظامی اداروں کے استعمال سے فرصت مل سکے، تو ’’آن لائن‘‘ جرائم کی پیشگی روک تھام کی طرف بھی توجہ دی جائے، تاکہ سادہ لوح عوام لٹنے سے بچ جائیں۔
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔