اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ راغب نعیمی کی جانب سے ’’وی پی این‘‘ کے حوالہ سے جاری کردہ پریس ریلیز کے بعد پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر طرفین کی جانب سے رائے زنی کی جارہی ہے اور کونسل کے مقاصد، افعال اور کردار ایک مرتبہ پھر موضوعِ بحث بن چکے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کونسل، اس کا دائرۂ اختیار اور ذمے داریاں کیا ہیں؟
یہ کونسل آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 228 کے تحت وجود میں آئی، جس کے مطابق مختلف مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام، ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے سابق جج بہ شمول ایک عورت، کونسل کے کم از کم 8 اور زیادہ سے زیادہ 20 ممبران ہوں گے۔
آرٹیکل 229 کے مطابق صدر، صوبائی گورنر، قومی اسمبلی یا سینٹ یا صوبائی اسمبلی کے ایک چوتھائی ممبران کی جانب سے کونسل کو بھیجے گئے سوال کہ آیا مجوزہ قانون اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے یا نہیں؟ اور کونسل پر لازم ہے کہ پندرہ یوم کے دوران میں مشورہ دے۔ آرٹیکل 230 میں کونسل کے افعال کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ جیسا کہ:پاکستانی مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو سفارشات پیش کرنا۔ موجودہ قوانین کو اسلامی تعلیمات کے تابع لانے کے لیے سفارشات پیش کرنا۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو اسلامی احکامات کے نفاذ کی خاطر قانون سازی کے لیے راہ نمائی فراہم کرنا۔ اور جب مجوزہ قانون کو کونسل سے مشورہ کی بابت بھیجا جائے اور کونسل یہ طے کرے کہ مجوزہ قانون اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، تو صدر، گورنر، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی مجوزہ قانون میں ترمیم کے لیے نظرِثانی کرنے کے پابند ہوں گے۔
آرٹیکل 228 تا 230 اور کونسل کے چیئرمین کی پریس ریلیز کے بہ غور مطالعہ کے بعد چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ: پارلیمنٹ، صدر، گورنر، صوبائی اسمبلی میں سے کس نے کونسل سے ’’وی پی این‘‘ کی بابت سوال پوچھا تھا؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ درجِ بالا میں سے کسی نے سوال نہیں پوچھا تھا۔
’’وی پی این‘‘ کی بابت سوال کس تاریخ کو پوچھا گیا اور کونسل کی جانب سے جواب کب پیش کیا گیا؟ سوال پوچھنے کی تاریخ معلوم نہ ہوسکی، مگر جواب 15 نومبر کو عوام کے سامنے پیش کردیا گیا۔
کیا پریس ریلیز میں سوال پوچھنے والے کا نام درج تھا؟ اس کا جواب نفی میں ملتا ہے ۔
کیا چیئرمین کونسل نے ذاتی حیثیت میں سوال کا جواب دیا تھا، یا کونسل کی جانب سے؟
پریس ریلیز کے مطابق وی پی این سے متعلق سوال کا جواب اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے چیئرمین کونسل نے دیا۔
کیا کونسل کی جانب سے جاری پریس ریلیز جاری کرنا آئین و قانون کے مطابق ہے؟
چوں کہ سوال پوچھے جانے والے کا نام یعنی صدر، گورنر، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی نہیں، بہ ظاہر مبینہ کسی فردِ واحد کے سوال کا جواب اسلامی نظریانی کونسل کے پلیٹ فورم سے دیا گیا ہے۔ لہٰذا بہ حیثیت قانون کے طالب علم، مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے منسوب پریس ریلیز غیر آئینی و اختیارات سے تجاوز شمار کی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ آئین کے آرٹیکل 229 اور 230 میں کونسل کی ذمے داریاں اور دائرۂ اختیار بہت واضح حد تک بیا ن کیا گیا ہے۔ کونسل کا کام صرف آئین کے تابع قابلِ قبول ہوسکتا ہے، نہ کہ مفتی صاحبان کی طرح فتوے جاری کرنا۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں جو معاملہ کنٹرول سے باہر ہوجائے، تو اسے مذہبی ٹچ سے کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستا ن میں دہشت گردی، غیر اخلاقی معاملات، بینکنگ ٹرانزیکشن کے حوالے سے قوانین اور سزائیں موجود نہیں؟ اگر ہیں، تو پھر کونسل کو اس فتوا نما پریس ریلیز کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
برصغیر پاک و ہند، ماضی میں لاؤڈ اسپیکر، ٹیلی وِژن، کیمرہ، فوٹو گرافی اور ویڈیو حرام قرار دینے کے لیے متعدد فتوے جاری کیے گئے، مگر آج انھی سائنسی ایجادات کے بغیر ہماری کوئی مذہبی مجلس مکمل ہی نہیں ہوپاتی۔ بہ امرِ مجبوری حکومت کومذہبی مقامات و محافل میں لاؤڈ اسپیکر کنٹرول کرنے کے لیے قانون سازی کرنا پڑی۔ ماضی میں کئی مذہبی حلقوں نے سوشل میڈیا کو یہود و نصارا کی سازش قرار دیا، مگر آج شاید ہی ایسا کوئی مذہبی راہ نما ہو، جس کا سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ یا ویب سائٹ موجود نہ ہو۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کئی مذہبی راہ نما ویڈیو ریکارڈ کرواتے وقت اپنے بیک گراؤنڈ میں یوٹیوب سلور، گولڈ اور ڈائمنڈ بٹن کو نمایاں کرکے ایسے دِکھا رہے ہوتے ہیں، جیسے یہود و نصارا کے قلعے کو فتح کرلیا ہو۔ حد تو یہ ہے کہ ماضی میں یوٹیوب کو حرام قرار دیا گیا، مگر اب یوٹیوب چینل کھول کر لاکھوں، کروڑوں روپے کی آمدن بھی حاصل کی جارہی ہے۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں سائنسی ایجادات کو مختلف مذاہب کے فتوؤں سے روکا جا سکا اور نہ مستقبل میں ایسا ممکن ہی ہوگا۔ حقیت پسندانہ اور غیر جانب دارنہ تجزیہ کیا جائے، تو اسلامی نظریانی کونسل کے چیئرمین کی پریس ریلیز حقیقی معنوں میں جگ ہنسائی کا باعث بن چکی ہے۔ علامہ راغب نعیمی صاحب کو سوال کا جواب کونسل کی بہ جائے ذاتی حیثیت میں دینا چاہیے تھا۔ کیوں کہ انتظامی معاملات کو انتظامی طریقے سے کنٹرول کرنے کی بہ جائے ’’مذہبی ٹچ‘‘ سے حل کرنا بھونڈی حرکت قرار پاتا ہے۔ منسٹری آف سائنس و ٹیکنالوجی، آئی ٹی بورڈ، سائبر کرائم روکنے کے لیے قوانین، اداروں اور عدالتوں کی موجودگی میں روایتی فتوا بازی سے کام لینے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔
سائنسی ایجادات کے منفی استعمال کو صرف سائنس ہی کی بہ دولت روکا جاسکتا ہے۔ بلاشک وشبہ ریاست کی حفاظت ریاستی اداروں کا کام ہے۔ ضرور ت صرف اس امر کی ہے کہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ریاست مخالف و غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل عناصر کو کنٹرول اور کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کریں اور موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنائیں اوراگر قوانین میں نقائص موجود ہیں تو دورِحاضر کے تقاضوں کے عین مطابق قانون سازی کی جائے، نہ کہ روایتی فتوا بازی سے کام لیا جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔