مَیں والد صاحب کے دوستوں کے ساتھ تاش بھی کھیلا کرتا۔ مَیں اچھی عادات کے ساتھ کسی حد تک صاف ستھری زندگی گزار رہا تھا، تاوقت یہ کہ مَیں نے اپنے آپ کو ایک ایسے بھنور میں پھنسالیا، جس سے مَیں نے اب تک خود کو دور رکھا ہوا تھا۔ وہ ایک فسوں تھا کہ مَیں اس کے جادو سے آزاد نہ ہوسکا…… اور جب یہ جادوئی وقت ختم ہوگیا، تو مَیں نے اپنے آپ کو ڈگری کے فرسٹ ایئر کے امتحان میں، حاضری کی کمی کی وجہ سے ، شرکت سے محروم کر دیا تھا۔
میرے والد، ہمیشہ کی طرح، نصیحت یا ڈانٹے بغیر، خاموش رہے…… لیکن مجھ سے کہا کہ مَیں ہمت نہ ہاروں اور اگلے سال دوبارہ کوشش کروں۔ وہ اگلا سال کبھی نہیں آیا۔ کیوں کہ مَیں نے نوکری تلاش کرنے کا فیصلہ کیا، جو ریاستی دور میں اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔
مَیں نے اپنے والد سے کہا کہ وہ نوکری ڈھونڈنے میں میری مدد کریں، لیکن اُنھوں نے سختی سے انکار کر دیا اور مجھے اپنی تعلیم جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ مجھے ایک سال کا نقصان دنیا کے خاتمے کے طور پر نہیں لینا چاہیے تھا، مگر مَیں صرف 18سال کا تھا اور اس بات کو اس وقت سمجھ نہ سکا۔
ہم اپنی ماں کو ’’نابو‘‘ کَہ کر پکارتے۔ بچپن میں ایک بار مَیں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ اُنھوں نے بتایا کہ اُن کی شادی کے وقت میرا سوتیلا بھائی شیر خان، اُن (میری ماں) سے چار سال یا اس سے کم عمر کا تھا۔ (چوں کہ میری ماں اور شیر خان کے عمروں میں بہت کم فرق تھا، تو) ہوسکتا ہے اُسے ماں کَہ کر پکارنا عجیب لگتا ہو اور اُس نے یہ اصطلاح ایجاد کی ہو۔ یہ لفظ اصل میں ’’ناوے ببو‘‘ تھا، یعنی دلہن آپا، وقت کے ساتھ ساتھ ’’نابو‘‘ بن گیا۔ افسر آباد اور ہمارے آبائی گاؤں ابوہا میں ہمارے دوست اور خاندان والے سبھی اُنھیں اس نام سے بلاتے۔
8 بیٹے اور 1 بیٹی کو پالا، آخر میں 2 جڑواں بچے، 1 لڑکا اور 1 لڑکی ہوئی۔ اگرچہ وہ اَن پڑھ تھیں، تاہم قرآن پاک اور کچھ پشتو کتابیں پڑھنا سیکھی تھیں۔ وہ اپنا نام لکھ سکتی تھیں اور اُردو تھوڑی بہت سمجھ سکتی تھیں۔ نیوز بلیٹن سنتیں اور 1971ء میں جب ہمارے گھر ٹی وی آیا، تو وہ اُردو ڈراموں سے بھی لطف اندوز ہوتیں۔
میری ماں نے تمام تر پریشانیاں برداشت کیں۔ گھر میں ڈھیر ساری چیزوں کی کمی تھی، لیکن کبھی شکایت نہیں کی۔ ان کا تعلق اخوند خیل کے ایک بڑے گھرانے سے تھا۔ ان کے والد، لعل میاں ایک حقیقی شکاری تھے، جنھیں بنجیر بابا کے جنگلوں میں شکار کرنے کا شوق تھا۔ ان کا صرف 1 بیٹا اور 4 بیٹیاں تھیں۔ انھیں بڑی دعوتیں کرنا پسند تھا اور یوں گاؤں میں اپنی تمام زمینیں اور زروبئی میں کچھ ’’سیرئی‘‘ کی زمینیں بیچ ڈالیں۔
ان کی زندگی کے آخری سال بہت مشکل تھے۔ ان کی دعوتوں سے لطف اندوز ہونے والوں نے انھیں چھوڑ دیا۔ ان کا اکلوتا بیٹا بھی ہندوستان چلا گیا تھا اور اس وقت آیا جب اس کے والد کا انتقال چند سال پہلے ہو چکا تھا۔ اس کا نام امیر محمد باچا تھا، جو ایک مضبوط اور خوب صورت آدمی تھا۔
میری ماں، میرے خیال میں، دوسرے بھائیوں کے زیادہ قریب تھیں، لیکن مَیں اپنے والد کے زیادہ قریب تھا۔ میری والدہ نے ماشاء اللہ لمبی عمر پائی۔ ایک بات اور، اس نے مختلف اوقات میں ہمارے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے تمام زیورات بیچ ڈالے۔ کیوں کہ میرے والد اکثر پیسوں کی کمی کے شکار ہوتے۔ ہم سب بھائی ان کے، دوسری ماؤں سے زیادہ، مقروض ہیں۔ انھوں نے تقریباً 94 سال کی عمر پائی اور یکم اپریل 2021ء کو اپنے خالقِ حقیقی کے پاس چلی گئیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کو نور سے بھر دے، آمین! (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔