کچھ میاں سید بادشاہ کے بارے میں

Blogger Sajid Aman
 میاں سید بادشاہ دراصل لعل بادشاہ کے بیٹے اور جانس میاں کمان افسر کے پوتے تھے۔ میاں صاحب کی پیدایش 1946ء میں ڈگر میں ہوئی، جہاں اُن کے دادا حاکم تھے۔ 
دراصل میاں سید بادشاہ، حضرت میاں نور بابا کی اولاد میں سے ہیں۔ سیدو بابا اور میاں بابا اور اُن کی اولادوں میں کچھ بہتر تعلقات نہیں تھے۔ اس حد تک کہ جب باچا صاحب کو بادشاہت دی گئی، تو میاں بابا کے خاندان نے باچا صاحب کو گلی گرام آنے کی دعوت دی۔ یہ دعوت کوئی عام بات نہیں تھی۔ باچا صاحب بھی خوب جانتے تھے اور سر سرداری کے سید زادے بھی جانتے تھے کہ دعوت دراصل موت کی دعوت ہے۔ 
سر سرداری کے سید زادوں نے درمیان میں پڑ کر صلح کروائی اور اور یوں میاں بابا کی اولاد ریاستِ یوسف زئی کے وفادار اور اقتدار میں شریک ہوگئے۔ اُنھیں حاکم اور بعد میں کمان افسر کے عہدے ملے۔ اسی مان میں سر سرداری کے سید زادوں سے رشتہ داری ہوئی اور میاں سید بادشاہ صاحب کا ننھیال سر سرداری اور بعد میں خود ان کی شریکِ حیات علاؤالدین باچا کی ہم شیرہ بنی۔
اس سے بڑھ کر جانس میاں کے ایک بیٹے لعل بادشاہ کو گوگدرہ میں آباد کیا گیا۔ شیر باچا میاں سپل بانڈی میں آباد کیے گئے، جو سیدو بابا کا سسرال بھی تھا۔ 
میاں باچا ’’ذلا ڈھیر‘‘ ( جس پر اب تبلیغی مرکز قائم ہے) کلا ڈھیر کے ساتھ آباد کیا گیا۔ 
ڈگر میں پیدایش کے بعد جانس میاں کمان افسر کے طور پر افسر آباد تشریف لائے اور ابھی چند سال ہوئے تھے کہ ان کو گوگدرہ میں مستقل آباد کیا گیا۔ یوں گلی گرام سیدو شریف سے یہ خاندان مینگورہ، سیدو اور اردگرد کے علاقوں میں آباد ہوا۔ 
سکول جانے کی عمر میں میاں سید بادشاہ کو بلوگرام سکول میں داخل کیا گیا، جو گوگدرہ کے قریب تھا۔ آٹھویں جماعت تک بلوگرام مڈل سکول میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان ودودیہ ہائی سکول سے 555 نمبروں اور دوسری پوزیشن لے کر پاس کیا، جب کہ 557 نمبر لے کر (مرحوم) سیف الملوک صاحب کے بڑے برخوردار نے سکول ٹاپ کیا۔ ابھی میڑک ہی میں تھے کہ ان کی شادی کردی گئی۔ بعد میں جہانزیب کالج سے ایف ایس سی کیا۔ خاندان کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں، مگر ایم بی بی ایس کیا کرتے، میڈیکل کالج کے پہلے ہی دن کالج کی لیبارٹریوں کی سیر کی اور بھاگ گئے۔ 
یہ وہ دور تھا جب مولانا مودودی کا پیغام پھیل رہا تھا، مگر مخالفت میں کفر کے فتوے تھے۔ بیش تر طالب علم اس ذہنی دباو میں شدید ڈپریشن کا شکار بنے۔ ’’مودودیت‘‘ کو ایک فرقے کی طرح پیش کیا جا رہا تھا، جہاں نفرت آج کی ’’قادیانیت‘‘ کی سطح کی تھی، ریاستی جبر اور سماجی دباو بھی عین اسی طرز کا تھا۔ 
ایوب خان کی مولانا مودودی کی مخالفت اور پاکستان میں جماعت اور مودودی پر پابندیوں کے اثر سے سوات بھی آزاد نہیں رہا۔ جماعتِ اسلامی اور مودودی کے خیالات سوات میں باطل قرار پائے اور جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو ریاست بدر ہونا پڑا۔ میاں سید بادشاہ کو مودودی صاحب نے شدید ذہنی دباو میں ڈال دیا۔ کیا روایتی اسلام ٹھیک ہے یا اصلاحات پسند مودودی ٹھیک ہے؟ اس شدید ڈپریشن کے دور میں 19 جون 1967ء کو میاں سید بادشاہ کی ملاقات پیر طریقت حضرت شل بانڈئی بابا جی کے ساتھ ہوئی، جنھوں نے ان کو ذہنی دباو سے نکال کر مابعد الطبیعیاتی دنیا پہنچا دیا۔ ان سے بعیت لی۔
نیز ان کی ایک نصیحت تھی کہ برا کرنا ہے، نہ سوچنا ہے نہ بولنا اور نہ کھانا ہی ہے۔ 
ایم بی بی ایس سے متنفر ہوکر پشاور یونیورسٹی جیالوجی میں داخلہ لیا اور جب ماسڑ کیا، تو تین گول میڈل حاصل کیے۔
اُس وقت جیالوجی ڈیپارٹمنٹ ایک سادہ اور مختصر سے تعارف کا نام تھا۔ ڈاکٹر رشید احمد خان طاہر خیلی (ڈاکٹر آر اے خان) چیئرمین تھے اور وائس چانسلر ہاشم خان صاحب تھے۔ 
ابھی فائنل کا رزلٹ نہیں آیا تھا۔ ڈاکٹر اے آر خان صاحب نے وائس چانسلر ہاشم خان صاحب سے کہا کہ رزلٹ نکلتے ہی یہ لڑکا اُڑ جائے گا۔ ودیشیوں کے لیے یہ سونے کی چڑیا ہے، اس کو روکیں۔ 
یوں بغیر رزلٹ نکلے پشاور یونیورسٹی جیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں ایک لیکچرر کی حیثیت سے بھرتی کر لیے گئے۔ 
یہ 1969ء کا سال تھا، یعنی ریاستِ سوات کے انضمام کا سال، پاکستان میں یحییٰ خان کا سال،ون یونٹ ختم ہونے کا سال…… مگر میاں سید بادشاہ جیالوجی میں ایسے گھسے کہ 1970ء میں ایک کے بعد ایک دو بلٹن نکالے ایک پر بیک ڈیٹ 1969ء اور دوسرے پر 1970ء ڈال دیا۔ 
پہلی دفعہ سوات، دیر، چترال، جندول، باجوڑ اور ہزارہ کے جیالوجیکل سروے اور نقشے شائع ہوئے۔ جیالوجی ڈیپارٹمنٹ حیران ہوا اور ڈیپارٹمنٹ کی پورے پاکستان میں شامت آگئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ پشاور یونیورسٹی کے ایک مختصر سے ڈیپارٹمنٹ نے سالوں کا کام ایک سال میں کردکھایا۔ یوں حکومت نے پشاور یونیورسٹی میں ’’نیشنل سینٹر آف ایکسی لینس ان جیالوجی‘‘ قائم کیا اور ڈاکٹر آر اے خان طاہر خیلی پہلے ڈائریکٹر بنے۔ 
’’فاٹا ڈیولپمنٹ کارپوریشن‘‘ قائم ہوا، تو میاں سید بادشاہ کو ’’ہیڈ آف منرلز اینڈ جیالوجی‘‘ بنایا گیا۔70ء کی دہائی کے ابتدائی سال تھے۔ 1971ء میں فاٹا میں کیا ہے، کہاں ہے؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ دو سال اکیلے کام کیا اور کچھ عرصہ بعد 75 افراد کی ٹیم منرلز اور 75 گراؤنڈ واٹر میں ساتھ ہوگئی۔ وزیرستان میں کاپر اور کرومائیڈ دریافت کیا اور پھر 21 سال کاپر منرالائزیشن میں صرف کیے۔ 
فاٹا ڈیولپمنٹ کارپوریشن اور فاٹا میں کام کرتے ہوئے 7 دفعہ اِغوا ہوئے، جس میں مغوی کے طور پر زیادہ سے زیادہ 21 دن اور کم از کم 3 دن رہے ۔
بچوں میں بڑی بیٹی نے کیلیفورنیا سے ایل ایل ایم کیا، شادی ہوئی اور اب سات سمندر پار مقیم ہے۔ 
دوسری بیٹی نے ماسٹرز کیا اور شادی کرکے مصر چلی گئی۔ 
تیسرے نمبر پر بیٹا سید عالم باچا نے سوشل ورک میں ماسٹر کیا اور آگے پڑھا۔ 8 اکتوبر 2005ء کو 7.6 شدت کے زلزلے سے آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں تباہی مچی۔ ان کو تھیسیس میں ٹراما آیا تھا۔ انھوں نے اس تباہی کی وہ عکاسی کی کہ اُن کے مقالے نے دنیا بھر میں بہترین پوزیشن لی۔ اُنھوں نے بھی برطانیہ مستقل سکونت اختیار کرلی ہے۔
چوتھے نمبر پر بیٹی نے میڈیکل ڈاکٹر بننا پسند کیا اور سپیشلائزیشن انگلینڈ سے کی۔ وہاں ان کی شادی ہوئی اور ہمیشہ انگلستان کی ہوکر رہ گئی۔ 
پانچویں نمبر پر بیٹی نے اسلامیات میں آنرز کیا۔ پھر آرکیالوجی میں ماسٹرز کیا۔ پھر ٹور ازم میں انگلستان سے ڈپلوما لیا۔ ان کی بھی شادی ہوگئی۔ 
چھٹے نمبر پر بیٹا ہے، جو ٹیلی کمیونی کیشن انجینئر ہے اور صرف یہی گھر پر ہے۔ 
میاں سید بادشاہ صاحب اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مطالعہ اور لکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ آج کل ایک کتاب لکھ رہے جس کا موضوع ’’تصوف، حضرت شل بانڈئی بابا کی زندگی اور ان کے ساتھ منسلک رہنے کے وقت کے تاثرات و اثرات‘‘ ہیں۔ 
کتاب ابھی زیرِتحریر ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے