دنیا میں رائج جمہوری نظامِ حکومت میں ریاست کو تین حصوں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے…… مگر پاکستانی ریاست میں دو صرف حصے ہیں۔ ایک خون پسینے کی کمائی سے ریاست کا پیٹ پالنے والی عوام الناس، دوسری ریاست پر حکم رانی کرنے والی اشرافیہ جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ سب شامل ہیں۔
گذشتہ چند ہفتوں میں پاکستانی اشرافیہ کی نوکریوں کو پکا کرنے، ان کی مراعات میں اضافے کے لیے حکومتی حکم نامے جاری کیے گئے، بل کہ قانون سازی تک کی گئی۔
گذشتہ ہفتے کی سب سے گرما گرم خبر جس نے ریاستِ پاکستان کے عوام کو شدید غم و غصہ میں مبتلا کیا، وہ تھی پاکستانی اعلا ترین عدلیہ کے معزز ترین ججوں کی مراعات میں بے پناہ اضافہ کرنے کا وفاقی حکومت کا حکم نامہ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ججوں کو ہاؤس رینٹ کی مد میں ملنے والے الاؤنس کو 68 ہزار روپے سے بڑھا کر ساڑھے تین لاکھ روپے، جب کہ جوڈیشل الاؤنس جو پہلے تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے تھا، اُسے بڑھا کر دس لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے گذشتہ سال ماہِ جولائی میں چیف جسٹس آف پاکستان کی ماہانہ تنخواہ میں تقریباً دو لاکھ پانچ ہزار اور دیگر ججوں میں تنخواہ میں تقریباً دو لاکھ روپے کا اضافہ کیا گیا تھا، جس کی بہ دولت چیف جسٹس کی تنخواہ بارہ لاکھ تیس ہزار روپے ہوگئی اور ججوں کی تنخواہ گیارہ لاکھ ساٹھ ہزار روپے ہوگئی تھی۔
سب سے حیران و مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے معزز ججوں کو انکم ٹیکس سے بھی استثنا حاصل ہوتا ہے۔ بجلی، گیس، پانی اور پٹرول کے اخراجات بھی حکومتی خزانہ سے مہیا کیے جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سپریم کورٹ کے ایک معزز جج پر ماہانہ تنخواہ، مراعات، سیکورٹی اخراجات کا تخمینہ تقریباً ایک کروڑ روپے تک بنتا ہے۔ یاد رہے گذشتہ ماہ تک سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17 تھی، مگر اب بڑھ کر 34 ہوجائے گی۔
گاہے بہ گاہے انتظامی اُمور میں سرِعام مداخلت، چھوٹی چھوٹی باتوں پر سوموٹو نوٹس لینے اور وزرائے اعظم و وزرائے اعلا، وزیروں کوسمن جاری کرنے والی عدلیہ کے معزز ججوں میں کسی ایک جج صاحب کی جانب سے ججوں کی تنخواہوں اور مراعات کے نوٹیفکیشن کے برخلاف عدالتی ریمارکس یا کارروائی کبھی نہ دیکھی اور شائد نہ کبھی دیکھنے کو ملے گی۔
کئی مواقع پر آپ نے کچھ معزز ججوں کی جانب سے مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹس لینے کی خبریں بھی سن رکھی ہوں گی۔ گذشتہ سال جب ججوں میں پلاٹوں کی تقسیم کی بازگشت جاری تھی، تو جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ پلاٹس بانٹنے کی تاریخ بہت زیادہ پرانی نہیں۔ سنہ 1960ء کی دہائی میں جج کو ریٹائرمنٹ کے وقت دو سے تین سو ایکڑ تک زرعی زمین دی جاتی تھی۔ اُس وقت آبادی کم تھی اور بہت ساری زمین خالی پڑی تھی۔ یاد رہے 60ء کی دہائی کے غیر آئینی حکم ران ججوں پر مہربان کیوں نہ ہوتے، جب کہ وہ خود ملک پر قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔ پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ آمروں کو حقِ حکم رانی عطا کرنے اور ان کے ہر غیر آئینی و غیر قانونی فیصلے کے لیے جواز ہمیشہ اشرافیہ کے معزز ججوں اور نام نہاد سیاست دانوں نے مہیا کیا۔
جہاں تک ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں مہنگے ترین کمرشل پلاٹ ملنے کے سلسلے کا تعلق ہے، تو یہ گذشتہ کچھ دہائیوں سے شروع ہوا ہے۔ ماضی میں کئی معزز ججوں کو قیمتی پلاٹوں پر ہاتھ صاف کرتے دیکھا گیا ہے۔ عوام کو کچہری میں کورٹ فیس سے لے کر عدالتی آرڈر کاپی بہ معاوضہ لینی پڑتی ہے۔ حصولِ انصاف کے لیے بے بس عوام الناس کی جائیدادیں تک بِک جاتی ہیں، مگر انصاف کا حصول کب ملے گا؟ اس کی گارنٹی ہمارا عدالتی نظام دیتا دکھائی نہیں دیتا، جب کہ اس کے برعکس اشرافیہ کے لیے مراعات کے سلسلے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔
دوسری جانب بھوکی اشرافیہ کے دیگر اراکینِ پارلیمان میں حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف کی صورت میں ہر قانون سازی پر ایک دوجے سے اختلاف کرتے نظر آئیں گے، مگر جب بات ان کی تنخواہوں اور مراعات کی آئے، تو طرفین کے ممبرانِ اسمبلی بانہوں میں بانہیں ڈالے قانون سازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
قرضوں میں ڈوبی ریاست پاکستان کی ابتر معاشی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے ججوں کی مراعات میں اضافے پر عوام سیخ پا نظر آتے ہیں اور حکومتی ترجیحات پرکھل تنقید کررہے ہیں۔
عوام کا غصہ بھی حق بہ جانب ہے کہ جس برق رفتاری سے اشرافیہ کے فوائد کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے، کاش! اسی رفتار سے عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی اشرافیہ عوام کے فائدے کے لیے بھی قانون سازی کرسکے۔ ایک طرف سپریم کورٹ میں ساٹھ ہزار کے قریب زیرِ التوا مقدمات جن کی شنوائی میں کئی سال درکار ہوں گے، دوسری جانب ورلڈ جسٹس پروجیکٹ قانون کی حکم رانی انڈیکس کی سالانہ ریکنگ میں دنیا کے 142 ممالک میں پاکستان کا 129واں نمبر ہے۔ عوام کا غم و غصہ عین فطری عمل ہے کہ کس کارکردگی کی بنا پر قومی خزانے کی بوریوں کے منھ اشرافیہ کی مراعات کے کھولے جارہے ہیں؟
اِک سوچ یہ بھی ہے کہ ججوں کی تنخواہیں سب سے زیادہ ہونی چاہئیں، تاکہ وہ کرپشن سے پاک ڈیوٹی سرانجام دے سکیں…… مگر کیا اتنی تنخواہوں اور مراعات کے باوجود ہم نے ججوں کے روپ میں بیٹھے مظاہر نقوی ایسے کئی ججوں کو رنگے ہاتھوں کرپشن کرتے نہیں دیکھا اور جن کی کرپشن سپریم جوڈیشل کونسل اور دیگر فورمز پر ثابت شدہ ہے۔
بہ طور قانون و سیاست کے طالب علم میں یہ اُمید کرتا ہوں کہ عدلیہ کے معزز جج اپنی مراعات کے لیے جاری نوٹیفکیشن کو مسترد کریں اور مراعات لینے سے انکار کردیں، جس سے پاکستانی عوام میں عدلیہ کے لیے احترام میں اضافہ ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔