ہمارے گھر میں ایک بڑی بیٹھک تھی، جسے ہم ’’گیسٹ روم‘‘ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔ اس کے دو دروازے تھے، ایک گلی کی طرف اور دوسرا اندرونی صحن کی طرف کھلتا تھا۔ جب ہمارے گاؤں کے سپاہی ہر تین ماہ بعد دس دِن کی ڈیوٹی کے لیے سیدو شریف آتے، تو رات کو اس بیٹھک میں ہمارے ساتھ رہتے۔ ان میں نسوار کا استعمال عام عادت تھی۔ مجھے تجسس تھا کہ اس کا ذائقہ اور اثرات کیسے ہوں گے۔ تب میری عمر 10 سال سے اوپر تھی۔ ایک صبح مجھے ایک سپاہی کے نسوار کے ڈبے سے ایک چٹکی چوری کرنے کا موقع ملا، اُسے کاغذ میں لپیٹ کر دیوار کے ایک سوراخ میں محفوظ کر لیا۔
اُن دنوں سکول میں چھٹیاں تھیں۔ جب سپاہی ڈیوٹی پر اور بابا اپنے دفتر چلے گئے، تو مَیں نے چوری شدہ نسوار کو اس سوراخ سے نکالا، چارپائی پر لیٹ گیا اور اپنے منھ میں نسوار کی وہی چٹکی رکھ لی جیسا کہ اُن کا طریقہ تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد، چارپائی آہستہ آہستہ دائرے میں گھومنے لگی۔ مَیں نے چارپائی کو روکنے کے لیے لکڑی کا فریم ہاتھوں سے پکڑلیا لیکن وہ نہیں رُکا۔ پھر مَیں نے محسوس کیا کہ میرے معدے میں گڑبڑ ہے۔ پھر مجھے قے ہوگئی۔ میری والدہ بھاگتی ہوئی بیٹھک میں آگئیں۔ مَیں نے جو مواد قے کیا تھا، اُس میں اُنھوں نے گندی نسوار دیکھ لی۔ اُس نے اپنی آستین سے میرا چہرہ صاف کرلیا۔ میرے ہوش میں آنے کے بعد، اُس نے مجھ سے قسم لی کہ مَیں اس لعنتی چیز کو دوبارہ استعمال نہیں کروں گا۔ یہ غلط سمت میں میرا پہلا قدم تھا۔
میرے سب سے قریبی دوست اسفند یار اور اس کا چھوٹا بھائی بخت راون تھا (اس نے بعد میں اپنا نام بدل کر اختر حسین رکھ لیا اور اِس وقت امریکہ میں مقیم ہیں اور پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔) دونوں بھائی شرافت، اچھے اخلاق کی علامت اور مطالعہ کے شوقین تھے۔ اُن کی بنیادی دل چسپی تعلیم میں تھی۔ فارغ وقت میں ہم اکٹھے کھیلتے تھے۔ چوں کہ ہمارے گھروں کے درمیان صرف ایک دیوار تھی۔ اُن کا بنگلہ ہمارے گھر سے دُگنا بڑا تھا۔ کیوں کہ ان کے والد عبدالحنان اُس وقت سٹیٹ آرٹلری کے کمانڈنگ آفیسر تھے۔
لیکن ہم ایک دوسرے سے اتنے جڑے ہوئے تھے کہ ہم اکثر اُن کے گھر میں اکٹھے رات گزارتے۔ اُن کا ایک کزن سبز علی تھا، جو کبھی کبھی کچھ دن رہنے کے لیے اُن کے ہاں آتا۔ ایک دن جب ہم دونوں حجرے میں اکیلے تھے، تو اُس نے سگریٹ نکالا، اُسے جلایا اور اس کا کش لیا۔ اُس نے مجھے بھی سگریٹ دے کر اُسے آزمانے کو کہا۔ میرے بار بار انکار کے باوجود اُس نے مجھے مجبور کرلیا، تو مَیں نے خوش بودار دھواں اندر کھینچ لیا۔ مجھے وہی چکر آنے لگے (جو ایک دفعہ نسوار کھانے سے آئے تھے ) اور مَیں نے سگریٹ پھینک دیا۔ مَیں نے اُسے دھمکی دی کہ مَیں اُس کے کزنز کو اس بارے میں بتاؤں گا، لیکن اُس نے اُنھیں نہ بتانے کی التجا کی اور بدلے میں وعدہ کیا کہ اگر مَیں چاہوں، تو وہ میرے لیے کچھ بھی کرلے گا۔ مَیں نے اسفندیار کو سبز علی خان کی سگریٹ نوشی کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اُن کا خونی رشتہ تھا اور مَیں صرف ایک دوست اور پڑوسی تھا…… لیکن مَیں نے پھر کبھی اُس کی سگریٹ کی پیش کش قبول نہیں کی۔ تب مجھے مستقبل کا ادراک نہیں تھاکہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ میں تمام حدود پار کر جاؤں گا۔
جب عبدالحنان صاحب ریاستی فوج سے کیپٹن کی حیثیت سے سبک دوش ہوئے، تو اُنھوں نے بڑا بنگلہ خالی کر دیا اور والی صاحب نے میرے والد کو وہاں منتقل ہونے کو کہا۔ چناں چہ ہم اُس بڑے گھر میں شفٹ ہو گئے۔ ہمارا سابقہ گھر گرا دیا گیا اور ریاستی ملازمین کے لیے اس جگہ پر تین کوراٹر تعمیر کیے گئے۔ میں گھر کے بہ جائے حجرے میں سوتا تھا۔ مَیں نے کورس کی کتابیں پڑھنا شروع کر دیں اور کالج لائبریری کے انگریزی سیکشن کو تقریباً سارا چٹ کرگیا۔
میرے والد کو بھی اُردو افسانے پڑھنے کا شوق تھا۔ مَیں لائبریری سے اُن کے لیے ناول لے آتا۔ نسیم حجازی اور ایم اسلم اُن کے پسندیدہ لکھاری تھے۔ ہم دونوں کا خبریں سننے کا ذوق بھی یک ساں تھا اور وہ مجھے شیرین کپتان اور نائب سالار عمرا خان کی رہایش گاہ پر لے جاتے، جہاں ہم عالمی خبریں سنتے تھے، خصوصاً ریڈیو زاہدان اور ریڈیو پاکستان پر۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔