ہم جو اپنی پیدایش پر غرور کرتے ہیں کہ ہم یہ ہیں، ہمارا جنس یہ ہے اور ہمارا خاندان ایسا ہے، تو اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں۔ ہم بس حادثاتی طور پر پیدا ہوئے ہیں۔ ہماری پیدایش میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں۔
جس طرح اپنی پیدایش میں ہم بے بس و لاچار تھے، اُسی طرح اپنے سیکس (جنس) کے انتخاب میں بھی ہمیں کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔ اگر کوئی مرد ہے، عورت ہے یا کوئی ان دونوں کی خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے، یعنی ’’خواجہ سرا‘‘ ہے، تو اس میں ہرگز اس کی کوئی غلطی یا کمال نہیں۔
ہم پشتون بدقسمتی سے وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اَب تک عورت کو مکمل انسان تسلیم نہیں کیا۔ ایسے میں خواجہ سرا کے بنیادی حقوق، انسانی وقار اور بنیادی آزادی کی بات کرنا کسی دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔
اس ملک کی تاریخ میں قومی سطح پر خواجہ سراؤں کے لیے بس ایک ہی ’’بِل‘‘ پاس ہوا ہے، جس پر ابھی تک مذہبی لوگوں کے تحفظات ہیں اور اس پر عمل درآمد تاحال ممکن نہ ہوسکا۔ شاید انھیں خواجہ سراؤں کے مسائل دکھائی نہیں دیتے، یا وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ اُس کے جسم اور روح میں تضاد ہو۔ کوئی بھی انسان یہ بات پسند نہیں کرتا کہ اُسے والدین کی محبت نہ ملے، جو کہ بنیادی ضرورت ہے۔ کسی کا بھی یہ دل نہیں کرتا کہ معاشرے میں اُس کی عزت نہ ہو۔ کسی کو بھی یہ بات پسند نہیں ہوگی کہ وہ انسانوں کی دنیا سے الگ ہوکے زندگی گزارے۔ کوئی بھی انسان یہ بات برداشت نہیں کرسکتا کہ اُسے ذلیل کیا جائے، اُس کے کپڑے اُتار دیے جائیں اور اُسے دنیا کے سامنے ننگا کیا جائے۔ کسی کو بھی یہ بات ہضم نہیں ہوگی کہ اُسے تیسرے درجے کا شہری سمجھا جائے، اُس کے بنیادی حقوق اس سے غصب کیے جائے اور اُس کی زندگی زندگی کے نام پر ایک داغ اور طعنہ رہ جائے۔ ہاں، کوئی بھی انسان یہ سب کچھ نہیں چاہتا، لیکن ایک خواجہ سرا نہ چاہتے ہوئے بھی ان سب تکالیف سے گزرتا ہے۔
بہ قول الیاس بابر اعوان
کالی کالی قسمت ان کی، نیلے پیلے خواب
اتنے رنگوں میں اپنی پہچان بھی ایک عذاب
خواجہ سراؤں کے ساتھ جو ظلم ہوتا ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ نہ ان کے والدین انھیں تسلیم کرتے ہیں، نہ معاشرہ انھیں عزت اور مقام دیتا ہے، نہ ریاستی ترجیحات میں ان کی فلاح ہی شامل ہے۔ الغرض، خواجہ سرا ہر طرح سے ایک محروم طبقہ ہیں۔
ہم میں ان کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ فحاشی پھیلاتے ہیں۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ ہم انھیں کام کرنے تو کیا ان کا آزادی سے گھومنا پھرنا بھی برداشت نہیں کر پاتے۔ حتی کہ ہماری نظروں سے وہ خدا کے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہوتے۔
خواجہ سرا اکثر کام کے لیے دھکے کھاتے ہیں۔ کام نہ ملے، تو خدا کے نام پر مانگتے ہیں، لیکن انھیں پھر بھی کچھ نہیں ملتا ۔ تب کہیں جاکر وہ پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے متبادل راستہ اختیار کرتے ہیں، لیکن ہمارا مسئلہ اور منافقت یہ ہے کہ ہم جسم بیچنے والے سے تو نفرت کرتے ہیں، لیکن اس کے جسم سے لطف اٹھانے والوں سے نفرت نہیں کرتے۔الٹا ہم ان کے تذکرے سے اپنی محفلیں بھی رنگین بناتے ہیں اور انہیں اچھے الفاظ میں یاد بھی کرتے ہیں۔
کم از کم نفرت کو تو خالص رہنے دیا جاتا۔ اس میں بھی منافقت اور دوغلے پن کی آمیزش ہم نے کردی۔
’’ایان ڈولفن‘‘ کا تعلق بھی اس محروم طبقہ سے ہے، جسے ہم انسان نہیں سمجھتے۔ اس کے ساتھ رونما ہونے والا واقعہ پہلا ہے اور نہ آخری ہی ہوگا۔
البتہ ایان بدقسمت ہونے کے ساتھ ساتھ خوش قسمت اس لیے ہے کہ اس کی ویڈیو منظرِ عام پر آگئی۔ اس کے ساتھ ہونے والے ظلم اور زیادتی دنیا کے سامنے آگئی اور اس پر آواز اٹھائی گئی۔ وگرنہ ڈھیر سارے بدقسمت ایسے ہیں جن کی چیخیں اور سسکیاں بھی ہم سن نہیں پاتے۔
خواجہ سرا بھی اشرف المخلوقات ہیں۔ وہ بھی محبت کے قابل ہیں۔ انھیں بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ انھیں بھی عزت درکار ہے۔ بنیادی انسانی حقوق اور آزادی پر ان کا بھی حق ہے۔
’’فرنود عالم‘‘ کے بہ قول ہمیں چاہیے کہ مردانہ غیرت کے زعم سے نکل کر ہیجڑوں کی طرح ’’ڈرپوک‘‘ ہوجائیں، تاکہ حق مارنے سے باز آسکیں اور حق دینے کی روایت ڈال سکیں۔
ہمیں چاہیے کہ خواجہ سراؤں سے اُن کے حقوق سلب کرنے کے بہ جائے اُن کی شناخت اور انسانی حقوق کی لڑائی میں اُن کا ساتھ دیں اور پشتونوں اور باقی قوموں کو یہ باور کروائیں کہ خواجہ سرا بھی اشرف المخلوقات ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔