علامہ محمد اقبالؔ پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ کہا جانے لگا ہے کہ ’’نچوڑ نچوڑ‘‘ کر رکھ دیا ہے۔ اقبالؔ کو لوگ اُن کی شاعری کے تناظر میں دیکھتے ہیں، جب کہ اقبالؔ وہ نہیں، جو شاعری میں نظر آتے ہیں۔ وہ سرسید کی فکر سے متاثر فلسفی تھے، جو برِصغیر میں روشن خیالی کے باوا آدم گزرے ہیں اور اس کی انتہا اقبالؔ کو کہا جاسکتا ہے۔
ایرانی انھیں فلسفی سروش کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں تمام روشن فکروں کے امام اقبالؔ ہیں۔ اہلِ تشیع نے اقبالؔ کو اہلِ بیت سے عقیدت کی وجہ سے شیعہ بنا ڈالا۔ اہلِ سنت اُن کو قرآن سے جڑا ہوا اسلام کا سپاہی گردانتے آئے ہیں، جب کہ اقبال آمدِ مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو ’’عجمی فسانہ‘‘ قرار دیتے تھے۔
اقبالؔ پر اسلام کا لبادہ اس طرح پہنایا گیا کہ وہ ہندوستان میں پیدا ہوئے اور پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی انتقال کرگئے، مگر ان کو پاکستانیوں نے اپنایا اور ہندوستانیوں نے بھی مذہب کی وجہ سے ان کو پاکستان کے حوالے کردیا۔
اقبالؔ کی فکر کا آخری دور ’’ری کنسٹرکشن آف ریلی جیئس تھاٹ‘‘ (Reconstruction of Religious Thought) سے پتا چلتا ہے۔ اُن کی شاعری کے بھی کئی ادوار ہیں۔ جن میں فلسفہ کی تعلیم کے بعد کی شاعری بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اُنھوں نے کوشش کی کہ اسلام کو فلسفہ اور مغربی سوچ سے ہم آہنگ کیا جائے، مگر اس چکر میں وہ اسلام کے دامن کو چاک کرکے چلے گئے۔
فارغ تو نہ بیٹھے گا، محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریبان چاک ، یا دامنِ یزداں چاک
علامہ اقبال کے نزدیک جنت اور دوزخ تمثیلات تھیں۔ وہ انھیں باقاعدہ مقامات نہیں سمجھتے تھے۔ جنت اور جہنم کے حوالے سے تو اقبال نے نہایت واضح الفاظ میں اپنا عقیدہ بیان کیا ہے: ’’جنت اور دوزخ اس (خودی) کے احوال ہیں۔ مقامات یعنی کسی جگہ کے نام نہیں ہیں۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:’’جیسے دوزخ کے بارے میں ارشاد ہے کہ اللہ کی جلائی ہوئی آگ جو دلوں تک پہنچتی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر وہ انسان کے اندر بہ حیثیت انسان اپنی ناکامی کا درد انگیز احساس ہے، جیسے بہشت کا مطلب ہے فنا اور ہلاکت کی قوتوں پر غلبے اور کامرانی کی مسرت۔‘‘
قرآن کے بہ جائے جنت اور دوزخ کا تفصیلی نقشا احادیث میں کھینچا گیا ہے۔ انسانی تاریخ میں جنت اور دوزخ کا بیانیہ سب سے زیادہ خوف ناک ہے اور اقبالؔ کا فلسفۂ خودی بہ راہِ راست جنت اور دوزخ سے ٹکراتا ہے۔
اقبالؔ انسان کو ہر پل مشقت اور جد و جہد میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے فلسفۂ حرکت اُن کے مجموعہ نظریات کا ایک اہم ستون ہے، لیکن جنت کا تصور انسان کو سست، کاہل اور ہڈ حرام بناتا ہے، یعنی دنیا کا عارضی ہونا مسلمانوں کو مادی ترقی سے روکتا ہے۔
ابلیس نے جبرائیل سے جو گفت گو کی ہے، وہ مکمل طور پر کسی نورانی مخلوق کی نفی ہے۔
ہے مری جرأت سے مشتِ خاک میں ذوقِ نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے مَیں کہ تو
خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو
گر کبھی خلوت میسر ہو، تو پوچھ اللہ سے
قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو
مَیں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو
اقبالؔ نے در اصل اسلام کی واقعی میں تشکیلِ نو کرنی چاہی تھی۔ اسلام کی ساری عمارت وحی پر کھڑی ہے۔ اقبالؔ نے چاہا کہ اسے اعلا ترین انسانی صلاحیت کے طور پر قبول کیا جائے، اور یوں کسی آسمانی دروازے کو بند کرکے انسان ہی پر فوکس کیا جائے۔ جس طرح عیسائیت میں کیا گیا۔
اقبالؔ سے پہلے سر سید نے بھی وحی کو پیغمبر کی داخلی کیفیت سے تعبیر کیا تھا۔ اُن کے نزدیک فرشتوں کا چوں کہ کوئی خارجی وجود ہی نہیں، بل کہ یہ فطرت کی قوتیں ہیں، اس لیے وحی بھی ایسی ہی ایک قوت کا شاخسانہ ہے۔ یہ پیغمبر کے دل سے اٹھتی اور اسی پر نازل ہوتی ہے۔ بیچ میں کوئی پیغام پہنچانے والا تیسرا نہیں ہوتا، اور اسے ہی سر سید کے نزدیک اصطلاح میں روح القدس یا جبریلِ اعظم کہا گیا ہے۔
اقبالؔ ساری زندگی جرمن فلسفے (کانٹ، فختے، ہیگل) کے حصار سے نکل نہیں پائے اور اُن کے لیے ممکن بھی نہیں تھا۔ اُنھوں نے خدا کو چھوڑ کر مطلق ایگو اور حقیقی لامتناہیت جیسے تصورات اختیار کیے اور مطلق ایگو کو ایگو (انسان) کے کنٹرول میں دے دیا، جب کہ حقیقی لامتناہیت (خدا) کے لیے متناہی (انسان) کو لازم سمجھا۔ یہ سب ’’ہیگیلین ازم‘‘ ہے۔ خدا اقبالؔ پر رحمتیں نازل فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔