ریاست مقصود بالذات نہیں، بل کہ اسے شہریوں کی ترقی و خوش حالی اور فلاح کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ ریاست اپنے اجتماعی اور انفرادی مفادات میں توازن قائم کرکے مقاصد حاصل کرتی ہے، جب کہ ریاست کے عمل کا دائرۂ کار بھی متعین ہوتا ہے۔
ایک فلاحی ریاست سے مراد ریاست کا وہ تصور ہے جس میں ریاست تمام شہریوں کوتحفظ فراہم کرتی ہے۔ شہریوں کی بہتری کی ذمے داری لیتی ہے۔ شہریوں کے جانی و مالی تحفظ کو اولین ترجیح سمجھتی ہے اور اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرتی ہے۔ اس طرح ریاست اپنے شہریوں میں کسی قسم کا امتیاز نہیں کرتی، خوا وہ لسانی، مذہبی، علاقی یا پھر اقتصادی و معاشرتی امتیاز ہی کیوں نہ ہو۔
وقت گزرنے کے ساتھ ریاست کا نیا تصور اُبھر کر سامنے آیا، جس سے انسانی زندگی میں بہتری آئی۔ ریاستی نظام کو از سرِ نو ترتیب دیا گیا، جس میں ریاست چلانے والوں اور عوام دونوں کے حقوق وضع کیے گئے۔کسی بھی فلاحی ریاست میں حکم رانوں کی حدود معلوم ہوتی ہیں۔ پاکستان کو بنے 77 سال ہوگئے ہیں اور آزادی سے لے کر اب تک ہم بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ آج تک جو کوئی بھی بر سرِاقتدار آیا، تو اُسے یہی کہتے سنا گیا کہ ’’اس وقت ملک نازک دور سے گزر رہا ہے!‘‘ لیکن کسی بھی حکم ران نے اس ملک کو مشکل سے نکالا اور نہ مسائل کے حل کی طرف کوئی توجہ ہی دی۔ ہرکوئی اقتدار کے لیے سیاست کرتا ہے اور کسی نے بھی ملکی اور عوامی مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
ایک ریاست کی ذمے داری جہاں پر بنیادی سہولیات کو فراہم کرنا ہوتی ہے، وہاں ریاست کی یہ ذمے داری بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرے۔ جو ریاست اپنے شہریوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم نہیں کرسکتی، اُسے مثالی ریاست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بڑوں سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ کوئی بھی ریاست اپنے شہریوں کے لیے ماں کی طرح ہوتی ہے، لیکن ملکِ عزیز میں اس کا کردار ایک ’’سوتیلی ماں‘‘ جیسا بن کر رہ گیا ہے۔ سوتیلی ماں کے اس سلوک میں عدلیہ، پولیس، حکومتِ وقت یا حکم ران اور بعض نادیدہ قوتیں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہیں، جو ریاستی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہی ہیں۔
آج کے بر سرِاقتدار طبقے نے حکومت کو دوام بخشنے کے لیے اِغوا کاری کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اِغوا کار مغوی پر پارٹی چھوڑنے، حکومتی حمایت اور اُن کی پیش کردہ آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے کے لیے دباو ڈالتا ہے۔ انکار کرنے والے مغوی کو شدید تشدد کرکے عبرت کانشان بنانا، اس کے گھر پر چھاپے مارنا اور کاروبار کو تباہ کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔
عدالتوں میں اِغوا کے مقدمے دائر کیے جاتے ہیں۔ ظلم زیادتی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک جو ظالم ہیں، اُن کے لیے در دینے والا عذاب ہے!‘‘(سورہ ابراہیم)
اِغوا کے مقدمے میں عدالت، پویس، اٹارنی جنرلوں کو مغوی کی بازیابی اور عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتی ہے، لیکن کوئی بھی عدالتی احکامات ماننے کو تیار نہیں اور عدالتیں اپنے احکامات منوانے میں بے بس نظر آتی ہیں۔
گذشتہ دنوں عمران خان کے وکیل ’’انتظار حسین پنجوتھا‘‘ کو نامعلوم افراد نے اِغوا کیا، تو اُن کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد اور اٹارنی جنرل کو انتظار حسین کی بازیابی کا حکم دیا۔ ریاستی اداروں نے عدالت میں بیانِ حلفی جمع کرایا کہ انتظار حسین پنجوتھا اُن کی تحویل میں نہیں۔ ریاستی ادارے ہر پیشی پر حیلوں بہانوں سے کام لیتے رہے۔ دو ہفتوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انتظار حسین پنجوتھا کو 24 گھنٹوں میں بازیاب کرایا جائے۔ اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر ٹھیک 24 گھنٹے بعد ایک پولیس مقابلے میں حسن ابدال کے قریب انتظار حسین کو ہاتھ پیر باندھے ایک گاڑی سے برآمد کیا گیا۔ پویس کے پوچھنے پر کہ آپ کا نام کیا ہے؟ مغوی جواب دیتا ہے کہ ’’ انتظار!‘‘ تو پولیس افسر جلدی سے بول دیتا ہے کہ یہ انتظار حسین ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انتظار حسین نے پویس کو بتایا کہ اِغوا کاروں نے اُن سے دو کروڑ روپے کو مطالبہ کیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ سب ڈرامے سے کم نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِغوا کاروں نے دوکروڑ تاوان کا مطالبہ ورثہ کی بہ جائے انتظار حسین سے کیوں کر کیا؟ اِغوا کار لوگوں کو اِغوا کرکے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں یا افغانستان لے کر جاتے ہیں، تو یہ کیسے اِغوا کار تھے کہ وہ مغوی کو پنجاب لا رہے تھے؟
مغوی نے جب اپنا نام انتظار بتایا، تو پولیس افسر کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ انتظار حسین ہیں؟
اس طرح کراس فائرنگ میں پولیس کا کوئی جوان زخمی ہوا اور نہ اِغواروں ہی میں سے کوئی زخمی ہوا۔ پولیس نے آج تک یہ تحقیق نہیں کی کہ جس گاڑی سے انتظار حسین کو برآمد کیا گیا تھا، اُس کا مالک کون تھا اور اِغوا کار کون تھے؟
اے آر وائی کے ایک پروگرام میں وزیرِ اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ انتظار حسین پنجوتھا کی اِغوا اور بازیابی کسی ڈرامے سے کم نہیں، جب کہ اُس کے جواب میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے حافظ حمد اللہ نے کہا کہ رانا ثناء اللہ کو سب معلوم ہے۔
جب انتظار حسین پنجوتھا کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا، تو چیف جسٹس ہائی کورٹ نے اِغوا کا کیس نمٹاتے ہوئے داخلِ دفتر کر دیا۔ جسٹس صاحب نے پولیس سے یہ تک نہیں پوچھا کہ اِغوا کاروں کو جلد سے جلد گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔ بس حکم ہوا کہ کیس نمٹا دیا گیا۔ اس سے پہلے صداقت عباسی، عثمان ڈار، علی اعوان، عمران ریاض،مطیع اللہ جان، اسد طور، شیخ رشید اور آزادیِ کشمیر کے دل دادہ شاعر احمد فرہاد بھی اِغوا ہوئے، لیکن آج تک اُن کے اِغوا کاروں کا تعین نہ ہوسکا۔ نہ عدالت نے حکومت سے اِغوا کاروں کے بارے میں پوچھ گچھ ہی کی۔ بس جو بھی بازیاب ہوتا گیا، اِغوا کا کیس نمٹا دیا گیا۔
سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ عدل و انصاف تو اسلام کا ایک اہم اُصول ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں، خاص طور پر حکومت اور قاضی کو حکم دیتا ہے کہ’’اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو! ہو جاؤ قائم رہنے والے، اللہ کے لیے گواہی دینے والے انصاف کی اور ہر گز نہ آمادہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو، عدل کیا کرو (کہ) وہ عدل کے زیادہ قریب ہے تقوا کے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ، بے شک اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے اُس سے جو تم عمل کرتے ہو۔‘‘ (سورۃ النساء، آیت 8)
عدل و انصاف کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے: ’’ایک مخزومیہ خاتون (فاطمہ بن اسود) نے (غزوۂ فتح مکہ کے موقع پر) چوری کرلی تھی۔ اس معاملے نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ اُنھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر حضورِ کریم صلعم سے گفت گو کون کرے گا؟ آخرِکار طے پایا گیا کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ آپ کو بہت عزیز ہیں۔ اُن کے سوا کوئی اور اس کی ہمت نہیں کرسکتا۔ چناں چہ حضرت اسامہ نے آپ سے اس بارے میں کچھ کہا، تو آپ نے فرمایا، اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حد میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ کھڑے ہوگئے اور خطبہ دیا (جس میں) آپ نے فرمایا، پچھلی ڈھیر ساری امتیں اس لیے ہلاک ہوگئیں کہ جب اُن کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا، تو اُسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کم زور چوری کرتا، تو اُس پر حد قائم کردیتے۔ اللہ کی قسم! (بالفرضِ محال) اگر فاطمہ بن محمد بھی چوری کرے، تو مَیں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔‘‘(بخاری)
عدل و انصاف کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مدینہ منورہ میں زلزلہ آیا۔حضرت نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی۔ زمین کی جنبش بہ دستور جاری تھی۔ اُن کے ہاتھ میں دُرہ تھا، وہ اٹھا کر زمیں پر دے مارا اور زمین سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: اے زمین! اللہ کے حکم سے ساکت ہو جاؤ، ٹھہر جاؤ! کیا عمر نے تجھ پر عدل و انصاف کو قائم نہیں کیا؟
بس یہ کہنا تھا کہ زمین ساکت ہوگئی اور زلزلہ ختم ہوگیا۔
افسوس کہ پاکستان میں قاضی کا کام صرف کیس نمٹانا ہی ہے۔ مجرم کا تعین اور اُسے سزا دینا نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔