فرد نہیں، نظام

Blogger Ikram Ullah Arif
 مشرف کا زمانہ تھا اور ہمارا یونیورسٹی دور چل رہا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو استعفا کا کہا گیا تھا۔ انکار کی صورت میں چیف جسٹس کو ہٹایا گیا اور باجود مارشل لائی نظام کے، ملک میں ’’عوامی بغاوت‘‘ کا سا ماحول بننے لگا۔ بقیہ ججوں نے حرفِ انکار بلند کیا، تو پی سی اُو ججوں کو خلعتِ فاخرہ پہنائی گئی۔ عوامی مزاج مگر برہم تھا۔ وکلا تحریک شروع ہوچکی تھی۔ ہم چوں کہ طالب علم تھے، اس لیے جامعہ پشاور کے ہاسٹل بلاک اے اور بلاک بی کے مابینی چوک کو ’’چیف جسٹس چوک‘‘ سے منسوب کرنے کا پروگرام بنایا گیا، تاکہ آمریت سے نفرت اور آزاد عدلیہ سے ہم دردی کا اظہار کیا جائے۔ 
مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی کیمپس میں قدم قدم پر پولیس کا ناکا لگا ہوا تھا۔ بڑی تناو والی کیفیت تھی، مگر نوجوان جذبوں کو شکست کون دے سکتا ہے، لہٰذا پروگرام ہوا اور بھرپور انداز سے ہوا۔ ’’عدلیہ کی آزادی‘‘ اور ’’آمریت کی بربادی‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔ 
اس کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک بھر میں وکلا تحریک آگے بڑھتی رہی اور لامحالہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں پر بھی اس کے اثرات پڑتے رہے۔ یوں وہ دن بھی آگیا، جب پشاور ہائیکورٹ میں تقریر کرنے افتخار چوہدری تشریف لائے اور کسی بھی آزاد عدلیہ کے طرف دار پاکستانی کی طرح میں بھی تقریب میں پہنچا۔ 
بلاشبہ ہزاروں لوگ آئے ہوئے تھے۔ کیا ہائیکورٹ کا بڑا احاطہ اور کیا سامنے سے گزرتی خیبر سڑک، جس کے پار کورکمانڈر ہاؤس، آئی جی ایف سی کا گھر، پرانا پی سی اور آج کا سیرینا ہوٹل، صوبائی اسمبلی، سول سیکرٹریٹ، گورنر ہاؤس، وزیرِ اعلا ہاؤس، ریڈیو پاکستان اور دیگر اہم سرکاری تنصیبات و عمارات موجود ہیں۔ ان تمام اہم عمارات کی موجودگی کے باوجود تِل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ 
پھر رات گئے جب تقریب کا خاتمہ ہوا، تو ہم پیدل گورا قبرستان تک گئے۔ اس پیدل سفر میں ہمارے ساتھ اسد قیصر بھی موجود تھے، جو تب تحریکِ انصاف کے صوبائی راہ نما تھے، آج کل ماشاء اللہ قومی راہ نما بن چکے ہیں۔
اسی وکلا تحریک کے زیرِ اثر ایک دن طلبہ نے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد کی شاہ راہِ دستور پر ریلی کا انعقاد کیا جائے۔ بہ وجہ مگر مَیں نے جانے سے انکار کیا۔ نہ جانے کیا وجوہات تھیں، مگر دل میں موجود انسان نے کہا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کیوں کہ تاریخ کاسبق یہی ہے کہ شخصیات سے توقعات وابستہ کرنے والوں کو آخرِکار مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
تب اس پوری تحریک کا جائزہ لے کے میں جان چکا تھا کہ تحریک جو آزاد عدلیہ کے لیے شروع کی گئی تھی، وہ ایک شخص کی ذات تک محدو ہوکر رہ گئی۔ گویا عدلیہ کو آزاد کرانا مقصود نہیں تھا، بل کہ افتخار چوہدری کو مسیحا ثابت کرنے کی کوشش ہورہی تھی۔ یہ اللہ کا فضل تھا کہ بروقت مجھے ادارک ہوا اور پھر اس طرح کے کسی بھی معاملے میں شامل نہ ہوا، بل کہ دیگر ساتھیوں کو بھی کہتا رہا کہ عدلیہ آزاد نہ ہوگی، بل کہ ایک شخص زمینی خدا بن کر آزاد عدلیہ کے خواب کو ہمیشہ کے لیے دفن کرے گا۔ 
نتیجتاً مشرف سے بے زار قوتوں کی فیصلہ سازی سے افتخار چوہدری جب بہ حال ہوئے، تو موصوف ایسے بت بن گئے کہ ’’الامان و الحفیظ!‘‘ 
یوں سمجھیے کہ وکلا تحریک سے مَیں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کبھی کسی شخص کو ’’آئیڈیلائز‘‘ نہیں کروں گا۔ سماج کی اکثریت کا مگر المیہ ابھی تک شخصیت پرستی، پیر پرستی اور سردار پرستی ہی ہے۔ 
حالیہ دنوں کچھ لوگ فائز عیسیٰ کو مسیحا مان چکے تھے۔ اب مگر مایوسی سے سر کھجا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے کچھ عرصہ قبل فیض حمید کے ’’فیض‘‘ کو تائید غیبی سمجھا ہوا تھا۔ اس طرح ابھی چند روز قبل کسی نے جسٹس منصور علی شاہ کو ’’منصور حلاج‘‘ تصور کیا ہوا تھا کہ وہ چیف بنے گا، تو ہمارے لیے ’’حلاج‘‘ کی طرح سولی پر لٹک جائے گا۔ ایسا نہ ہوا اور اُلٹا اس تصور نے منصور علی شاہ کو نقصان پہنچایا۔ نتیجتاً مایوسی ہی پھیلی۔ 
ابھی پچھلے ہفتے امریکی انتخابات میں ٹرمپ جیتے، تو بھی کچھ لوگ شاداں و فرحاں نظر آئے کہ گویا ٹرمپ کی جیت سے اُن کے سبھی دلدر دور ہوجائیں گے۔ 
حاصلِ نشست مگر یہ ہے کہ افراد سے توقعات وابستہ کرنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ افراد نہیں، بل کہ نظام پائیدار ہوتا ہے۔ نظام کی درستی ایک ارتقائی عمل ہے، جس کے اثرات دیرپا ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے میں جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارا موجودہ سیاسی، عدالتی، ریاستی اور سماجی نظام میں افراد کے اثرات کس حد تک ہیں اور نظام کس حد تک موثر ہے؟ 
افراد کی بہ جائے اگر نظام کی درستی اور فعالیت کو مہمیز کیا جائے، تو کچھ شک نہیں کہ عوامی مسائل کا حل نہ نکلے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے