ٹرمپ کی جیت کے مستقبل پر اثرات

Blogger Syed Fayaz Hussain Gailani
 ڈونلڈ جے ٹرمپ نے 2024ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں کام یابی حاصل کرلی ہے اور ایک مرتبہ پھر امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ وہ امریکہ کے 47ویں صدر ہوں گے۔ اُن کی کام یابی نے امریکی سیاست میں ایک نیا موڑ لیا ہے اور عالمی سطح پر بھی اُن کے فیصلوں کا اثر محسوس ہونے کی توقع ہے۔ 
ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں تبدیلیاں آسکتی ہیں اور ان کے سخت گیر نظریات اور پالیسیوں کے اثرات دنیا بھر میں محسوس ہوں گے۔ پوری دنیا کے اندازے ٹرمپ نے غلط ثابت کر دیے، لیکن کمال حیرت یہ ہے کہ کمیلا ہیرس جو بائیڈن کے درمیان میں راستہ چھوڑ کر جانے کے بعد سے شان دار طریقے سے مہم چلاتی نظر آئیں اور کاکردگی بھی اعلا دکھائی۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ نہ تو کوئی دھاندلی کا شور مچایا، نہ کوئی اور شکایت ہی کی، بس اپنے حامیوں کو اکھٹا کیا اور باوقار طریقے سے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ یہی جمہوری معاشروں کا حسن ہے۔
ٹرمپ کی صدارت کا پہلا دور اُن کی ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کی پالیسیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، جس کے تحت انھوں نے داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر امریکہ کے مفادات کو ترجیح دی۔ ٹرمپ نے امیگریشن، تجارتی معاہدوں اور امریکی صنعتوں کی حمایت کے حوالے سے اپنے سخت فیصلے کیے تھے اور اُن کا یہ رویہ اب بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔ اُن کی کام یابی کے بعد بھی امریکہ کی امیگریشن پالیسی میں مزید سختی متوقع ہے، خاص طور پر میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے حوالے سے اُن کے سابقہ وعدوں کو عملی شکل دی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ وہ اپنی ’’وکٹری سپیچ‘‘ میں بھی کَہ چکے ہیں کہ غیر قانونی طور پر کسی کو امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں۔ 
جیسا ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ رہا ہے کہ وہ ایک جارح مزاج صدر کے طور پر میکسکو دیوار ہو یا افغانستان پالیسی، پاکستان کے ساتھ تعلقات ہوں یا شمالی کوریا پہ قدغن لگانا، ایران کے ساتھ معاملات ہوں یا مشرق وسطیٰ کی تازہ ترین صورتِ حال، ہر لحاظ سے اُن کا جارحانہ رویہ جہاں اُن کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے، وہاں اُن کا رویہ عالمی پالیسی سازی میں اُن کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے، لیکن ’’معاہدہ ابراہیمی‘‘ کا مستقبل بھی یقینی طور پر انتہائی دل چسپ ہو گا کہ ٹرمپ خاصے اس حوالے سے سرگرم رہے تھے۔
ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کا محور ہمیشہ امریکہ کی صنعتی ترقی اور تجارتی مفادات کا تحفظ رہا ہے۔ اُن کے دورِ صدارت میں، اُنھوں نے ٹیکس میں کمی کی اور کارپوریٹ ٹیکس میں تبدیلی کی، جس کا مقصد امریکہ کی داخلی صنعتوں کو عالمی مارکیٹ میں مسابقت دینے کے قابل بنانا تھا۔ اُن کی پالیسیوں نے امریکی معیشت کو مختصر مدت میں فائدہ پہنچایا، لیکن یہ طویل مدتی حکمت عملی نہیں تھی۔ ٹرمپ کی دوبارہ صدارت میں، امریکہ کی معیشت میں مزید اضافہ کرنے کے لیے وہ اسی طرح کے اقدامات کرسکتے ہیں، اور اُن کا زور امریکی صنعتوں کو عالمی سطح پر بہتر بنانے اور چین جیسے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات میں تبدیلی لانے پر ہوسکتا ہے۔ تجارتی تعلقات میں بھی یقینی طور پر اُن کی شخصیت کا پہلو نمایاں رہے گا۔ امریکی عوام بے وقوف نہیں کہ اُنھوں نے بلا سوچے سمجھے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدرات کی کرسی تھما دی، بل کہ اَب شاید امریکی عوام یہ جان چکے ہیں کہ پوری دنیا کے بکھیڑوں میں اُلجھنے کے بہ جائے امریکی مفادات اہم ہیں۔
خارجہ پالیسی میں، ٹرمپ کا انداز روایتی سفارت کاری سے بالکل مختلف تھا۔ ان کی کامیابی کے بعد، ممکنہ طور پر وہ امریکہ کے اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید چیلنج کریں گے اور ان سے امریکی دفاعی اخراجات میں اضافے کی مانگ کریں گے، جیسا کہ اُنھوں نے اپنے پہلے دور میں کیا تھا۔ ٹرمپ نے اکثر کہا تھا کہ امریکہ کے اتحادی ممالک کو اپنی دفاعی ذمے داریوں میں اضافہ کرنا چاہیے، تاکہ امریکہ پر انحصار کم ہوسکے۔ اُن کی دوبارہ صدارت میں یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد ناٹو سے جارحانہ انداز میں مطالبات ہونا یقینی دکھائی دے رہا ہے۔ 
اس کے علاوہ خارجہ محاذ پر یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ سیکریٹری خارجہ کے لیے اُن کا انتخاب کون ہوتا ہے؟ کیوں کہ ایران، شمالی کوریا، پاکستان، افغانستان، چین، روس اور یورپ کے معاملات میں اُن کی خارجہ پالیسی کا یقینی طور پر امتحان ہوگا۔ مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال کے ساتھ یوکرین کا مسئلہ بھی منھ کھولے کھڑا ہے اور ٹرمپ کا یہ مسئلہ بھی امتحان ثابت ہوگا، کیوں کہ یوکرین امریکہ سے مدد کی اُمید لگائے بیٹھا ہے۔
پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں بھی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ ٹرمپ کی پچھلی صدارت میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اُتار چڑھاو آیا تھا۔ وہ ایک طرف پاکستان کی افغانستان میں امن عمل میں معاونت کو سراہتے تھے، تو دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے امریکی امداد میں کٹوتی کرچکے تھے۔ اُن کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد، پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سختی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ امریکی پالیسی میں، پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر، چین کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں پاکستان سے مزید تعاون کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ٹرمپ پاکستان کو چین کے خلاف کسی ممکنہ اتحاد میں شامل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان کو محتاط حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے یقینی طور پر مبارک باد دینے میں تو پہل کر دی ہے۔ کاش، ٹرمپ بھی اسی طرح کا ردِعمل پاکستان کے حوالے سے تعلقات میں مثبت انداز میں دیں۔ 
ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے حوالے سے اُن کی سخت گیر پالیسی جاری رہ سکتی ہے۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکہ کی علاحدگی اور اقتصادی پابندیاں اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ اُن کی دوبارہ صدارت میں ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں، جس سے مشرقِ وسطیٰ میں مزید تناو پیدا ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں، پاکستان کو ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے توازن کو برقرار رکھنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ 
غزہ کے انسانی بحران میں بھی ٹرمپ کی پالیسی کا امتحان ہے۔ کیوں کہ اس وقت ایک انسانی المیہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا منتظر ہے کہ وہ اپنے لے پالک کو قابو کرنے کی کوئی سبیل کرتے ہیں یا ہر طرح کے غیر انسانی فعل میں اُس کے ساتھ اب بھی کھڑے رہتے ہیں؟ 
ٹرمپ نے اپنے دور میں داخلی سطح پر ’’قانون اور نظم‘‘ کے نفاذ پر زور دیا تھا، اور اُن کے دوبارہ صدر بننے کی صورت میں، امریکی شہروں میں جرائم کی شرح اور تشدد کے واقعات کو روکنے کے لیے مزید سخت اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ پولیس کو مزید اختیارات دینے کی پالیسی پر عمل درآمد جاری رہنے کا امکان ہے۔ اُن کے فیصلوں کا مقصد امریکی معاشرتی سطح پر امن و امان کو برقرار رکھنا ہے، جس کے لیے پولیس اور سیکورٹی اداروں کی طاقت کو مزید مستحکم کیا جاسکتا ہے، یعنی ہم کَہ سکتے ہیں کہ اُن کے جارحانہ رویے کا عکس پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے طرزِ عمل میں نظر آسکتا ہے۔ 
امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی اور سیاسی تعلقات میں مزید کشیدگی متوقع ہے۔ ٹرمپ کی سابقہ صدارت میں چین کے ساتھ تجارتی تنازعات نمایاں تھے اور اُن کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد بھی چین کے ساتھ تعلقات میں سخت پالیسیوں کی توقع ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی رقابت میں اپنی پوزیشن کو متوازن رکھنا ہوگا۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کا عالمی سطح پر بھی اثر پڑے گا۔ کیوں کہ وہ بین الاقوامی معاہدوں اور تنظیموں میں امریکہ کی شمولیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کی پالیسیوں کے تحت امریکہ عالمی سطح پر مزید تنہائی اختیار کرسکتا ہے، جیسا کہ اُس نے پیرس معاہدہ اور ایران جوہری معاہدے سے نکلنے کے دوران میں کیا تھا۔ اُس صورت میں، امریکہ کے عالمی تعلقات میں ایک نیا موڑ آ سکتا ہے اور اس کا اثر دیگر ممالک پر بھی پڑے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کی سیاسی فضا مزید متنازع ہوسکتی ہے۔ اُن کے فیصلے اور بیانات امریکی عوام کے درمیان اختلافات کو جنم دے سکتے ہیں، جیسا کہ پہلے اُن کی صدارت میں ہوا تھا۔ اُن کی سخت پالیسیوں اور بیان بازی کی وجہ سے امریکی معاشرے میں مزید تقسیم پیدا ہوسکتی ہے۔ اُن پر کرمنل کیس بھی ابھی التوا کا شکار ہیں اور نومبر میں بھی اُن پہ کارروائی کی شنید ہے۔ اَب دیکھنا یہ ہو گا کہ اپنے خلاف جاری کیسوں کے حوالے سے ٹرمپ کیا لائحۂ عمل اپناتے ہیں؟ 
ٹرمپ کی کام یابی نے امریکی سیاست کو ایک نئے دور میں داخل کر دیا ہے۔ اُن کی قیادت میں امریکہ اپنے داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کرے گا، لیکن عالمی سطح پر اُن کی پالیسیوں میں مزید سختی آ سکتی ہے۔ اُن کی پالیسیوں کا اثر عالمی تعلقات پر پڑے گا اور امریکہ کے اندرونی مسائل، جیسے کہ نسلی اور معاشرتی تناؤ، مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ ان کی قیادت امریکہ کے مستقبل کے لیے ایک دل چسپ اور متنازعہ باب کھول سکتی ہے، جس کے اثرات آنے والی دہائیوں تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ 
  ..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے