گذشتہ دنوں پاکستانی پارلیمنٹ نے بلٹ ٹرین سے زیادہ تیز رفتاری دکھاتے ہوئے سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ اور ساتھ ہی ساتھ مسلح افواج کے سربراہان کی مدتِ ملازمت میں اضافہ کرنے کے لیے قانون سازی کی۔ اس قانون سازی کی بہ دولت سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بہ شمول چیف جسٹس 17 سے بڑھ کر 34 کردی گئی اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججوں کی تعداد 9 سے بڑھا کر 12 کردی گئی ہے۔
گذشتہ ماہ پارلیمنٹ نے مشہورِ زمانہ 26ویں آئینی ترمیم کی بہ دولت اعلا عدلیہ کے ججوں، چیف جسٹس اور ججوں کے چناو، آئینی بینچوں کی تشکیل اور دائرۂ اختیار میں نمایاں تبدیلیاں کی تھیں۔ اور راقم نے 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ’’جمہور کی فتح‘‘ کے ٹائٹل سے اپنی معروضات پیش کی تھیں۔
بہ ہرحال حالیہ قانون سازی پر ہر جمہوریت پسند شخص حیران و پریشان ہے۔ حکومتِ وقت اور اتحادی جماعتوں کو آخر ایسی کیا پریشانیاں لاحق تھیں، جو یک دم قانون سازی کی ضرورت پیش آگئی؟
پاکستانی عدلیہ اور پارلیمنٹ کی ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں آمروں کی ناجائز حکومتوں اور مارشل لاؤں کو جواز بخشنے کے لیے عدالتی فیصلے میسر رہے، تو کبھی پارلیمنٹ سے قانون سازی کی سہولت بھی میسر رہی۔
پارلیمنٹ میں بیٹھے کچے بندے طاقت ور لوگوں کے لیے قانون سازی کی صورت میں کام بہت پکے کرجاتے ہیں۔ بلاشک و شبہ یہ پارلیمنٹ کا استحقاق ہے کہ وہ وفاقی محکموں کے لیے قانون سازی کرے، مگرکیا ہر بار پارلیمنٹ کو فردِ واحد اور خصوصاً اعلا ترین سرکاری عہدے داروں کی مدتِ ملازمت میں توسیع اور نوکری پکی کرنے کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے؟
بدقسمتی سے سروسز چیف، عدلیہ کے چیفس کی مدتِ ملازمت بڑھانے اور طے کرنے والے وزرائے اعظم کے عہدہ کی مدت آج تک متعین نہ ہوپائی۔
قانون سازی کرنے والوں کی نوکریاں اتنی کچی ہوتی ہیں کہ ان کے وزیرِ اعظم کو کسی بھی وقت کان سے پکڑ کر نکال دیا جاتا ہے اور وزارتِ عظمی کا اگلا امیدوار ہنسی خوشی مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے کے لیے شیر وانی پہن کر حلف برداری کی تقریب میں پہنچ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیاقت علی خان سے لے کر میاں محمد شہباز شریف تک بہ شمول نگران پاکستانی وزائے اعظم کی تعداد 33 ہوچکی ہے، مگر اسی عرصہ میں آرمی کے سربراہوں کی تعداد صرف 17، نیوی سربراہان کی تعداد 23 اور فضائیہ کے سربراہان کی تعداد صرف 24 اور اسی طرح پاکستان کے چیف جسٹس صاحبان کی تعداد 30 تک محدود ہے۔
ماضیِ قریب ہی کی بات ہے، جب عمران احمد خان نیازی نے تاحیات مسندِ اقتدار براجمان رہنے کے لیے قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت کے لیے قانون سازی کی اور اب موصوف جیل میں ’’دیسی مرغ‘‘ کھا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ زمانۂ اپوزیشن میں موصوف برطانیہ کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ دوسری جنگِ عظیم میں بھی آرمی سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں دی گئی تھی، مگر جب اقتدار کی ہما سر پر بیٹھی، تو موصوف نے کُرسی کو مضبوط تر کرنے کے لیے تمام تراُصولی نظریات کوپسِ پشت ڈال کر سپہ سالار کی مدت میں نہ صرف توسیع دلوائی، بل کہ توجیہات بھی پیش کیں۔
یہی نہیں، بل کہ جب موصوف کو اقتدار سے نکال باہر کیا گیا، تو صدر عارف علوی کی مدد سے ایوانِ صدر میں رات کی تاریکی میں ہونے والی ملاقاتوں میں موصوف نے قمر باجوہ کے کہنے پر صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو بھی تحلیل کیا۔
بات یہی پر نہیں رُکتی موصوف قمر باجوہ کو مدتِ ملازمت میں مزید توسیع دینے کے لیے آفریں کرتے رہے۔
یاد رہے کہ قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تقریباً تمام سیاسی جماعتوں بہ شمول تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بانہوں میں بانہیں ڈال کر ’’آرمی ایکٹ‘‘ میں ترمیم منظور کروائی تھی۔
اب بات کرتے ہیں موجودہ وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کی، تو ان کے بارے میں پہلے ہی سے مشہور ہے کہ وہ طاقت ور حلقوں کے پسندیدہ سیاست دان ہیں، مگر پسندیدگی کا معیار اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتا ہے کہ جیل میں دال روٹی کھانے کی باری اک بار پھر میاں شہباز شریف کے نصیب نہیں ہوگی۔
سکندر مرزا سے ایوب خان، ایوب خان سے یحییٰ خان، اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو سے ضیاء الحق اور نواز شریف سے پرویز مشرف اور عمران خان سے قمر جاوید باجوہ، ماضی میں ہر حاکم نے اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لیے طاقت ور شخص کی خوش نودی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی، مگر انجام ہم سب کے سامنے ہے۔
سیاست و قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں سابق سینٹ چیئرمین میاں رضا ربانی کی پریس ریلیز کی من و عن حمایت کروں گا، جس میں اُنھوں نے 4 نومبر کو پارلیمنٹ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔ کیوں کہ حکومتِ وقت نے قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کے قواعد کو معطل کردیا تھا۔ قواعد کے مطابق قوانین کو متعلقہ سٹیڈنگ کمیٹیوں میں بھیجنا چاہیے تھا، جب کہ ایسا نہیں ہوا اور نہ پارلیمنٹ میں ان قوانین پر بحث ہوئی۔ یقینی طور پر اس قانون سازی کا عدلیہ اور افواج پر اہم اثر پڑے گا، جس کے نتیجے میں سیاست اور جمہوری عمل بھی اثر انداز ہوں گے۔
میاں رضا ربانی کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ ایسی کارروائیاں پارلیمنٹ یا آئین کی خود مختاری کا اظہار نہیں، بل کہ خوف کا اظہار ہیں۔ اس طرز کی قانون سازی سے پارلیمنٹ خوف زدہ یا جمہوری نظام کم زور ہوجاتا ہے۔
سب سے بڑھ کر جب آپ کسی فردِ واحد کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے انتظامات کر رہے ہوتے ہیں، تو درحقیقت آپ ادارے یا محکمے کے نظام اور جونیئر افراد کی قابلیت پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔