کبھی خواب نہ دیکھنا (بارھویں قسط)

Blogger Riaz Masood
 	افسر آباد میں ہماری زندگی کسی بھی قابلِ ذکر تبدیلی کے بغیر یک سانیت زدہ انداز میں جاری رہی۔ صرف افسران کے تبادلے اور یہاں آنے والے افسران کی آمد کے وقت کچھ ہل چل والے لمحے آتے۔ چناں چہ ہمیں سوات کے کئی علاقوں کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا۔ جو افسر کافی دیر افسر آباد میں رہے، وہ ہمارے پڑوسی تھے، اسٹیٹ آرمی، آرٹلری BTN کے کیپٹن عبدالحنان۔ ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ لوگ ہمیں ایک ہی خاندان سے سمجھتے تھے۔
	سول افسران میں سے ایک افسر محمد مجید خان تھے، جو افسر آباد میں طویل عرصے تک تعینات رہے اور وقفے وقفے سے دیگر تحصیلوں میں بھی تعینات رہے۔ روزنامہ ’’انجام‘‘ انھیں بہ ذریعہ ڈاک باقاعدگی سے ملتا تھا۔
	اُس اخبار کا ایک اندرونی صفحہ پشتو کے لیے مخصوص تھا۔ مَیں اُن کے حجرے پر جا کر، اُسے باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ میں اُس اخبار کے لیے لکھوں اور اپنا نام چھپے ہوئے الفاظ میں دیکھ سکوں، لیکن مَیں ہمت نہ کرسکا۔ مَیں نہیں چاہتا تھا کہ میرے والد اُسے پڑھیں۔
	ایک دن مَیں نے کوشش کی اور ایف آر جاوید کے نام سے انچارج پشتو پیج کو ایک پشتو افسانہ بھیجا۔ یہ محبت کی ایک طویل کہانی تھی، جو کئی قسطوں میں شائع ہوئی۔ محمد مجید خان جان گئے کہ فرضی نام کے پیچھے کون ہے اور اس کے بارے میں میرے والد کو بتایا۔ پہلا حصہ پڑھ کر وہ دونوں دوسرے حصے کا انتظار کرنے لگے۔ میرے والد نے مجھ سے پوچھا کہ پڑھنے والوں کو کیوں سسپنس میں رکھا ہے؟ مَیں نے اُسے بتایا کہ یہ ایڈیٹر پر منحصر ہے کہ اُسے کیسے پیش کیا جائے۔
	بہ ہرحال اس بات نے میرا حوصلہ بڑھایا اور مَیں نے ایک خوب صورت نوٹ بک میں، جو مجھے ہندوستان سے شیر خان نے بھیجی تھی، مختصر کہانیاں لکھنا شروع کیں ۔ مَیں نے کچھ شعر لکھنے کی بھی کوشش کی، لیکن وہ شعر کلک نہیں ہوئے۔ مَیں نے ایک دوست سے اس مخمصے کے بارے میں پوچھا، تو اُس نے بتایا کہ اچھی شاعری لکھنے کے لیے محبت کرنا ضروری ہوتا ہے۔
	اَب میں کسی ایسے شخص کو تلاش کرنا چاہتا تھا، جس سے مَیں محبت کر سکوں…… لیکن محبت کر نے کے لیے کسی لڑکی کا دست یاب ہونا مشکل تھا۔ کیوں کہ پردے کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔ صرف غریب طبقے کی خواتین کو بے حجاب دیکھا جاسکتا تھا، لیکن ان کے خط و خال بھوک اور غذائی قلت کے باعث بگڑ ے ہوئے تھے۔ اعلا طبقے کی لڑکیوں کے بارے میں سوچنا بعید از قیاس تھا اور بہت خطرناک بھی۔ اس لیے مَیں نے کسی سے حقیق محبت کرنے کا خیال ترک کر دیا اور اپنی شاعری کے لیے ایک خیالی صنم تراش لیا۔
	میرے والد ایک مخلص مسلمان تھے، بہت پرہیزگار اور خدا سے ڈرنے والی زندگی گزارتے تھے۔ وہ چشتیہ روحانی سلسلے سے وابستہ تھے۔ اُن کے راہ نما یا پیر سیدانو گڑھی، مردان کے ایک سید تھے۔ اُس مقدس ہستی کا نام سید عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ تھا۔ وہ کچھ دنوں کے لیے سوات تشریف لے آتے تھے اور سوات کے اُس وقت کے ولی عہد میاں گل جہانزیب کے پاس رہتے۔ اُن کے دو شاگرد یا ’’مرید‘‘ میرے والد کے قریبی دوست تھے، یعنی علی حیدر تحصیل دار اور غلام صادق، جو شاہی محل کے اسٹاف ممبر تھے۔ اُن کے واسطے ہی سے میرے والد اُن کے مرید بن گئے۔
	ایک دفعہ میرے والد نے سید صاحب کو کھانے پر بلایا۔ اُنھوں نے نہایت شفقت کے ساتھ دعوت قبول کی اور اپنے دونوں مریدوں کے ساتھ ہمارے گھر تشریف لائے۔ اُس وقت میری عمر چار یا پانچ سال تھی اور مَیں نے ٹخنوں تک لمبی قمیص پہنی تھی، جیسا کہ اُس زمانے کا رواج تھا، جب کہ سات سال سے زیادہ عمر کے لڑکے قمیص کے ساتھ شلوار کا استعمال کرتے تھے۔
	دوپہر کے کھانے کے بعد مجھے اور میرے بڑے بھائی فضل وہاب کو اُن کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ وہ بہت شان دار شخص تھے۔ اُن کے پورے جسم سے جیسے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ مَیں اُن کے چہرے کی طرف نہیں دیکھ سکا، لیکن چند سیکنڈ کے لیے۔ اُنھوں نے پہلے میرے بھائی کو پیار کیا اور پھر میری طرف متوجہ ہوئے۔ اپنی نرم مسکراہٹ کے ساتھ میرے چہرے کی طرف دیکھا اور بلند آواز میں کہا: ’’اوہ، یہ قلندر ہے!‘‘ اور مجھے دعائیں دیں۔ پھر وہ شاہی محل کی طرف اپنے ساتھیوں سمیت روانہ ہو گئے۔ 
 	سب جانتے ہیں کہ قلندر سے کیا مراد ہے، لیکن پشتو میں ایک لفظ ’’قلندرہ‘‘ ایک انتہائی بری عورت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایسی عورت جو ہر طرح کی غیر اخلاقی حرکتیں اور برائیاں کرتی ہو۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے، ’’خزہ چے د ……نہ اودانگی، قلندرہ شی۔‘‘ اس کے لیے ہم انگریزی میں جو سب سے نرم لفظ استعمال کر سکتے ہیں ، وہ ہے "Slut"۔    (جاری ہے)
  ..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے